SIZE
2 / 7

خاله شکورن نے بڑی تعریفیں کی تھیں۔ اچھی امیر فیملی' لڑکا اچھی پوسٹ پر' مختصرسا خاندان' انہیں بس خوب صورت لڑکی در کار تھی۔ حسن سیرت ہوتی تو سونے پر سہاگہ۔

وہ لوگ جاتے ہوئے امید کا دیا ان کے ہاتھ میں تھما گئیں۔ انہیں ملیحہ بہت پسند آئی تھی' بس وہ لڑکے کی مرضی جاننا چاہ رہی تھیں اور اس میں بھی انہوں نے بہت دن نہیں لیے۔ ایک ہفتے بعد ہی انہوں نے منظوری کی سند دے دی۔

رفاقت کے دل میں خوشی کے پھول کھل اٹھے ۔ وہ اسٹیٹس میں اگرچہ ہم پلہ نہ تھیں۔ لیکن انہوں نے پھر بھی ملیحہ کو ٹرک بھر جہیز دیا۔ انہوں نے بہت کچھ بنا رکھا تھا ملیحہ کے لیے۔ ملیحہ کو بھي حاشر کی تصویر پسند آئی تھی جو کہ ادھر سے بھجوائی گئی تھی۔ ٹو پیس میں حاشر صاحب بھی دمک رہے تھے۔ کسی نے تعریف کی' کسی نے دل جلانے والے ریمارکس دیے۔ پھر بھی شادی ہو ہی گئی۔

مہندی اور بارات اس طمطراق سے آئی کہ محلے والوں نے دانتوں تلے انگلیاں داب لیں۔ یوں لگ رہا تھا جیسے حقیقت نہیں ڈراما ہو۔ اب تو سب کو ہی ملیحہ کی قسمت پر رشک آنے لگا۔ شہزادی کو بیاہنے واقعی شہزادہ آ گیا تھا۔ وہ دلہن بنی قیامت ڈھا رہی تھی۔ کہنیوں تک مہندی کے بیل بوٹے اس نے خود شوق سے بنوائے تھے۔ سب نے کیسے کیسے تعریف کی تھی۔ سرخ لہنگے میں وہ کھلی پڑ رہی تھی۔ رخصتی ہوئی ' رفاقت کا گھر سونا ہوا اور رونق حاشرمیاں کے کمرے میں جا اتری۔

حاشر میاں دیکھ تو چکے تھے۔ دلہن بیگم بات بے بات ہنستی ہیں۔ دلہن بیگم کے ہاتھوں پر کھلی پڑی مہندی' نیل پالش سے رنگے ہاتھ' انگوٹھیوں سےمزین انگلیاں' دلہن کے خود پرست ہونے کا پتا دے رہی تھیں۔ حاشرمیاں خود کیا کسی سے کم تھے اور مغلوب ہونا تو انہوں نے کسی سے سیکھا ہی نہ تھا۔ سو اسی احساس کے تحت انہوں نے کمرے میں آتے ہی جو بیان جاری فرمایا' سن کردلہن بی نے خود ہی گھونگھٹ الٹ دیا۔ حیرت بھری سرمئی آنکھیں حاشرمیاں پر یوں گڑی تھیں جیسے ابھی تڑاتڑ فائرہی دے ماریں گی۔

" میں نے کہا ' اچھے خاصے صاف ستھرے ہاتھ مہندی سے خراب کرنے کی کیا تک تھی بھلا۔" بات دہرائی گئی۔ ملیحہ نے اپنے بے تحاشا خوب صورت ہاتھوں کو دیکھا ' وہ تو سمجھ رہی تھی' حاشراس کے مہندی بھرے ہاتھ تھام کر تعریفوں کے پل باندھ دے گا اور شاید ہاتھ تھامے تھامے وہ عمرہی بتا دے۔ اور ادھر جیسے کسی نے غبارے میں کیل گھسا دیا ہو۔ وہ اب بھی بے یقینی سے حاشر کو دیکھ رہی تھی۔ اب حاشر کو سجی سنوری دلہن خوب صورت تو لگ رہی تھی' لیکن۔۔۔۔ اس کے اندر کا خود پرست مرد.۔۔۔۔! (اور اماں کی پوٹلی)

" مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی' اتنا میک اپ اور زیور کیوں لاد ہیں لڑکیاں اپنے اوپر؟ اب وہ بیڈ کی پائنتی پر بیٹھا رسٹ واچ اتار رہا تھا۔ اور ملیحہ کو اپنا آپ چقندر محسوس ہو رہا تھا۔ (سرخ جوڑے اور سرخ میک آپ کی وجہ سے اور کیا خبر اگلا جملہ اس کا یہ ہی ہو) ملیحہ چپ چاپ اٹھی اور واش روم جا کر منہ دھو آئی۔ اب کے حاشر میاں کی آنکھیں پھٹی تھیں۔ (دلہن سے اس ردعمل کی توقع جو نہیں تھی۔) حاشرمیاں کے دل کو تو خیر کچھ نہیں ہوا' البتہ پندار کو ٹھیس لگی اور اچھی خاصی لگی۔ اپنے الفاظ کی تلخی یکسر بھلا دی۔

ملیحہ نے سارا زیور اتار کر ڈبوں میں پیک کیا اور اٹھا کر سیف کے لا کر میں رکھ دیا۔ ایک آرام دہ سوٹ زیب تن کرنے کے بعد لہنگا دوبارہ پیک کیا اور اسے بھی ملحقہ اسٹور روم میں رکھ آئی۔ اسے اس وقت اسے ایک ڈائجسٹ یا کتاب کی کمی شدت سے محسوس ہو رہی تھی۔ کاش دوسری ضروری اشیاء کے ساتھ وہ یہ بھی رکھ لاتی۔ حاشر میاں تو دل برداشتہ ہو کر موبائل پر بزی ہو چکے تھے۔ ملیحہ نے بھی کمبی تان لی۔ یوں یہ خوبصورت وقت دو انا پرست اور خود پسند لوگوں کی فطرت کی نذر ہو گیا۔

اگلے دن حاشر میاں کے اٹھنے سے قبل ہی وہ چنری کا گوٹا لگا ہلکا پھلکا سوٹ پہنے باہر صحن میں موجود اس کی بھتیجیوں اور بھانجیوں کے ساتھ گپ شپ لگاتے موجود تھی۔ ساس' سسر نہال کہ کیسی گھل مل جانے والی بہو ملی۔ نندیں خوش کہ دلہن خوب صورت ' مگر نخرے والی نہیں۔

حاشر میاں نے کھلی کھڑکی سے آدھا گھنٹہ تو یہ منظر ملاحظہ کیا' پھر برداشت ختم ہو گئی اور لگے آوازیں دینے۔ "ملیحہ۔۔۔۔۔ ملیحہ۔۔۔۔ ملی۔" لو جی ایک منٹ لگا وہ ملیحہ سے ملی ہو گئی۔

ملیحہ فرماں برداری کے تمام ریکارڈ توڑتی روبرو یار تھی۔ حاشر نے ناقدانہ جائزہ لیا۔ آج اس کا چہرا میک اپ سے مبرا تھا۔ ریڈ گرین چنری کا گوٹے والا سوٹ۔ یہ اس کی عزیزازجان سہیلی نمرہ نے اپنے ہاتھوں سے تیار کیا تھا۔ اس کے گورے پاؤں کولہا پوری چپل میں مقید تھے اور اس میں کوئی شک نہیں تھا ' بہت خوبصورت لگ رہے تھے۔