اس کی زبان بہت صاف تھی اور اس نے انگریز شاید مجھے میرے لباس کی وجہ سے کہا تھا۔ میں نے پینٹ شرٹ پر کوٹ پہن رکھا تھا۔ ورنہ میرا رنگ سانولا تھا۔
میں شرما کرامی کی اوٹ میں ہوگیا۔ اس نے بازو سے پکڑ کر جھٹ پٹ میرے رخساروں پر کئی بوسے دیے اور اس طرح ایشاع کو بھی خوب بھینچ بھینچ کر پیار کیا تھا۔ یہاں تک کہ وہ بسورے لگی تھی۔
اور یہ میری تائی جہاں سے پہلی ملاقات تھی۔ رشتے میں تو وہ میری مامی لگتی تھی لیکن میں اسے ظہیرکی دیکھا دیکھی تائی جیراں کہنے لگا تھا اور ہمیشہ تائی جیراں ہی کہتا رہا تھا۔
ہم نانا کے گھر دس دن رہے تھے۔ ان دس دنوں میں میری تائی جیراں سے بہت دوستی ہو گئی تھی اور وہ مجھے چھوٹی مامی سے زیادہ اچھی لگنے لگی تھی حالانکہ وہ خود دلہن تھی لیکن وہ میرے اور ایشاع کے بہت ناز اٹھاتی تھی اور رات کو سونے سے پہلے امی اور نانی کے پاؤں اور ٹانگیں بھی دباتی تھی۔ پتا نہیں یہ ماما نے اس سے کہا تھا یا وہ خود ہی ایسا کرتی تھی لیکن وہ گھر کے ہر فرد کی بہت خدمت کرتی تھی۔
اس روز جب ہم آ ئے تھے تو ماما بہت دیر سے آئے تھے۔ شام گہری ہوگئی تھی اور میں نانی کے لحاف میں گھسا تھوڑاسا چہرہ لحاف سے باہر کیے مکئی کا مرنڈا کھا رہا تھا۔ جب ماما منیر اندر آئے۔ میں پہلی بار ماما منیر کو دیکھ رہا تھا۔ دو گھوڑا بوسکی کا کرتا سفید لٹھے کی کڑ کڑ کرتی شلوار اور پاؤں میں تلے والے کھسے ' چھ فٹ سے نکلتا قد' وہ تو کوئی فلمی ہیرو لگ رہے تھے۔
" بیٹھ جا منیرے! کھڑا کیوں ہے؟" نانی اٹھ کر بیٹھ گئی تھیں۔
" وہ۔۔۔۔۔ وہ جیراں کدھر ہے؟" ماما منیر ادھر ادھر دیکھ رہے تھے۔
" جہلم سے تیری بہن آئی ہے' اسی ک ہے باورچی خانے میں۔"
میں لحاف کا کونا اٹھاۓ نانی کے پیچھے سے چھپ چھپ کر انہیں دیکھ رہا تھا۔ اتنے گورے چٹے۔ لمبے بال زلفوں کی صورت کندھوں پر بکھرے تھے۔ سیدھی مانگ نکالے وہ تو کچھ اور ہی لگ رہے تھے۔
یا اللہ یہ منیر ماما ہیں۔
ماموں نصیراورامی بھی خوش شکل تھے لیکن منیر ماموں تو جیسے کسی اور ہی دنیا سے اۓ لگ رہے تھے۔ مجھے ان سے شرم آ رہی تھی ۔ اس لیے میں نے رضائی ميں منہ چھپا لیا تھا۔ ماموں سامان چارپائی پر ہی چھوڑ کر باہر چلے گئے - نانی اٹھ کر ان کا لایا ہوا سامان دیکھنے لگیں۔ ستاروں والے اور کڑھائی والے خو صورت رنگوں کے زنانہ کپڑے تھے ۔ کچھ میک اپ کا سامان وغیرہ تھا۔ نانی نے مجھے بتایا کہ ماموں شہر گئے ہو ئے تھے دلہن گے تو سب ہی منیر کی دلہن دیکھنے آئیں گے۔
تائی جیراں اگر بہت خوب صورت تھی توماموں منیر بھی کم نہ تھے تائی جیراں کے بال بہت لمبے اور گھنے تھے اور وہ ان میں پراندہ ڈالتی تھی' جو اس نے گھٹنوں سے نیچے تک آتا تھا۔ ایک بار جب وہ بر آمدے میں دھوپ میں بیٹھی بالوں میں تیل لگا رہی تھی تو میں نے حیرت سے اس کے بالوں کو دیکھا تھا۔ " " کیا دیکھتا ہے کاکے؟"
" آپ کے بال۔۔۔۔ میں نے اتنے لمبے اور اتنے زیادہ بال کسی کے نہیں دیکھے۔ یہ بہت خوب صورت ہیں۔"
" تیرا ماما بھی یہی کہتا ہے؟" تائی جیراں کے لبوں پر شرمیلی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی تھی۔ اتنی بڑی عورت کو شرماتے ہوئے بھی میں نے پہلی بار دیکھا تھا۔ لیکن اس مسکراہٹ نے جیسے اس کے پورے چہرے کو روشن کر دیا تھا۔ اس کے لبوں پر شرمیلی سی مسکراہٹ تھی اور وہ اپنی چٹیا کو بل دے رہی تھی۔ سبز طویلے رنگ کی شلوار پر کالے رنگ کی گلابی پھولوں والی قمیض تھی۔ نئے فیشن کی سلی ہوئی۔۔۔۔ یہ کپڑے ماموں شہر سے لائے تھے۔ ان دس دنوں میں پہلے دن کے سوا پھر میں نے اسے لنگی باندھے نہیں دیکھا تھا۔ اس روز میں نے تائی جیراں سے کہا۔
" تائی! آپ ہمیشہ ایسے کپڑے پہنا کریں۔ دادا کے گاؤں میں تو مرد ایسی لنگیاں پہنتے ہیں' چار خانوں والی بھی اور سادی بھی۔"