تائی جیراں کو میں نے پہلی بار اس وقت دیکھا تھا' جب میری عمر دس سال تھی۔ میرے ابو آرمی میں میجر تھے اور آئے دن کی ٹرانسفر کی وجہ سے انہوں نے مجھے مری میں داخل کروا دیا تھا۔ دسمبر کا اینڈ تھا اور میں چھٹیاں گزارنے جہلم آیا ہوا تھا۔ ان دونوں ابو کی پوسٹنگ جہلم میں تھی۔ گاؤں سے نانا کا خط آیا تھا اور پتا نہیں اس خط میں ایسا کیا لکھا تھا کہ امی فورا گاؤں جانے کو تیار ہو گئیں۔ بیٹ مین کو ڈھیروں ہدایات دے کر امی صبح نکلیں اور ہم دوپہر سے پہلے گاؤں پہنچ گئے تھے۔
نانا کا گھر بہت بڑا تھا۔ پہلے ایک بڑا احاطہ پھر رہائشی گھر' جس کا مین دروازه احاطے میں کھلتا تھا۔ احاطے میں ہی ایک طرف جانوروں کا کوٹھا تھا۔ دروازے میں داخل ہوتے ہی بڑا سا صحن تھا۔ صحن میں دیواروں کے ساتھ کیاریاں تھیں اور دھریک' جامن اور شہتوت کے درخت تھے۔ صحن پکا تھا سرخ اینٹوں کا اور صحن سے آگے دو اطراف میں کھلے برآمدے تھے۔ برآمدے میں دیواروں کے ساتھ دو تین چارپائیاں تھیں' جن پر ڈبیوں والے کالے کھیس بچھے رہتے تھے۔ مجھے نانا کے گھر آنا ہمیشہ ہی اچھا لگتا تھا۔
گاڑی احاطے میں کھڑی کرکے جب ہم گھرمیں داخل ہوئے تو سارا برآمدہ دھوپ میں نہایا ہوا تھا۔ نانا برآمدے میں ہې کمبل اوڑھے چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے اور ذرا فاصلے پر موڑھے پر تائی جیراں بیٹھی تھی۔
تائی جیراں کون تھی' میں نہیں جانتا تھا۔
امی تیزی سے نانا کی طرف بڑھی تھیں۔ نانا ہماری آواز سن کر آٹھ بیٹھے اور
امی سے ملنے لگے تھے۔ میں اپنی چھوٹی بہن ایشاع کا ہاتھ پکڑے کھڑا تائی جیراں کو دیکھ رہا تھا' جو موڑھے پر بیٹھی تھی اور اس کے سامنے چلم پڑی تھی۔ وہ زمین پر پڑی تھیلی سے تمباکو نکال کر ہتھیلی سے رگڑتی اور پھر چلم کی ٹوپی میں ڈال کر تمباکو کو تیلی سے سلگاتی اور چلم کی نے سے جو اس نے ہونٹوں تلے دبا رکھی تھی کش لگاتی۔ میں کھڑا دلچسپہ سے اسے دیکھ رہا تھا کہ جب ایشاع ہاتھ چھڑا کر امی کی طرف بھاگی میں نے چونک کر نظریں اس سے ہٹا لیں اور نانا کی طرف بڑھا۔
" اؤے میرا شہزادہ آیا ہے۔"
میں دوڑ کر ان کے گلے لگ گیا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں برآمدہ سب لوگوں سے بھر گیا تھا۔ نانی اماں' چھوٹی مامی اور ان کے بچے۔ چھوٹے ماما نصیر۔ یہ سب میرے جانے پہچانے تھے لیکن وہ جو موڑھے پر بیٹھی حقہ پی رہی تھی' اسے میں نہیں جانتا تھا۔
" یہ تائی جیراں ہے۔" میرے ماموں زاد بھائی ظہیر نے جو میرا ہم عمر تھا مجھے بتایا تھا۔
" جیراں!" مجھے یہ نام بہت عجیب سا لگا تھا۔
" تایا منیر کی " ووہٹی( دلہن) ہے۔" ظہیر نے میری معلومات میں اضافہ
کیا تھا۔
منیر میرے بڑے ماموں تھے لیکن میں نے ہوش سنبھالنے کے بعد انہیں نہیں دیکھا تھا۔ امی بتاتی تھیں کہ میں چار سال کا تھا کہ وہ نانا سے کسی بات پر ناراض ہو کر گھر سے چلے گئے تھے اور اب وہ چھ سال بعد وہ چند دن پہلے گھر آۓ تھے تو ان کے ساتھ تائی جیراں بھی تھی۔ ظہیر نے مجھے بتایا کہ دادا نے پھپھو کو خط لکھ کر بلوایا ہے۔ "برادری کی روٹی کرنی ہے۔ تایا اتنے عرصے کے بعد آیا ہے اور پھر دلہن ساتھ لایا ہے۔"
اب امی تائی جیراں سے مل رہی تھیں اور میں ظہیر کو چھوڑ کر امی کے پاس کھڑا ہو گیا تاکہ تائی جیراں کو قریب سے دیکھ سکوں۔
وہ کھڑی ہو کر امی سے مل رہی تھی۔ اس کا لباس مجھے بہت دلچسپ لگا تھا۔ اس نے آتشی گلابی رنگ کی ریشمی قمیض پہنی ہوئی تھی۔ اس کے گریبان پر مردوں کی قمیضوں لمبی پٹی پر کاج بنے ہوۓ تھے اور ان میں سونے کے مینے والے بٹن لگے ہوۓ تھے۔ یہ بٹن زنجیر کے ساتھ ایک دوسرے سے منسلک تھے۔ اسی طرح کے سونے کے مینے والے بٹن داد کو عید پر بوسکی کے کرتے میں لگاتے دیکھا تھا۔ اس نے شلوار کے بجائے کالے رنگ کی ٹاسے والی لنگی باندھی ہوئی تھی۔ دادا کے گھر میں ان کا ملازم چار خانے والی لنگی باندھتا تھا۔ لیکن یہ تو عورت تھی۔ تائی جیراں۔ ماموں منیر کی دلہن۔ میں نے اس سے پہلے کسی عورت کو ایسے کپڑے پہنے نہیں دیکھا تھا۔ وہ امی کے ساتھ کھڑی ان سے لمبی لگ رہی تھی۔ اس کا رنگ بے حد گورا تھا اور آنکھیں خوب بڑی بڑی ' جن میں کاجل کی لمبی دھاریں لگی ہوئی تھیں۔ اس کے ہونٹ بھرے بھرے اور بے حد گلابی تھے بغیر لپ اسٹک کے۔ اس کے کانوں میں بھی موتیوں والے جھمکے تھے۔
" یہ تمہارا بیٹا ہے۔ بالکل انگریز لگتا ہے یہ تو۔"