اب جانے ایسی کیا بات ہو گئی؟ اچانک امی کی شوگر اتنی بڑھ گئی کہ وہ چکرا کر گر پڑیں۔ ایک ڈرپ بھی لگانی پڑی۔ سلمیٰ کی طبیعت کی خرابی کا احوال چھوٹی بہن سے بات کرنے پتا چلا تو اس کا دل اڑ کر وہاں پہنچنے کو بے قرار ہو گیا۔
" اچھا۔۔۔۔۔۔ امان کے ساتھ شام کو چلی جانا۔" انہوں نے اپنی پرانی بنارسی قمیض کی ترپائی کھولتے ہوئے چشمے سے اسے دیکھا۔ وہ شریفاں مائی کی بیٹی کے لیے اپنے کچھ پرانے کپڑوں کی مرمت میں مصروف تھیں۔
" جی ۔۔۔۔۔ وہ ابھی جانا چاہ رہی ہوں۔ امی کی طبیعت کچھ خراب ہے۔" خوشی نے ان کی طرف التجائیہ انداز میں دیکھا۔
" خیر۔۔۔۔۔ تو ہے دلہن؟" انہوں نے سوئی کو دھاگے کی نلکی میں پھنسایا اور فکر مندی سے پوچھا۔
" جی۔۔۔۔۔۔ جی ۔۔۔۔۔۔ بس ایسے ہی ذرا شوگر کا مسئلہ ہے۔" اس نے بظاہر اطمینان سے کہا۔ وہ اپنے میکے کے راز ساس کے سامنے کھولنا نہیں چاہتی تھی۔ اس
کے چہرے پر چھائی اداسی کوئی اور ہی کہانی سنا رہی تھی۔
" ہر گھر کے اپنے مسئلے مسائل ہوتے ہیں۔ اگر دلہن مناسب نہیں سمجھ رہی ۔ تو مجھے مزید سوال نہیں پوچھنے چاہئیں۔" خورشیدہ نے کریدنے سے گریز کیا ان کی اشتیاق انور کے ساتھ کامیاب شادی شدہ زندگی کے پس پردہ کئی ایسے ہی رمز چھپے ہوۓ تھے' اپنی اچھی عادتوں کی بدولت ہی وہ معمولی شکل و صورت رکھنے کے باوجود شوہر کے دل پر آج تک چھائی ہوئی تھیں۔
" ہوں۔۔۔۔۔۔ٹھیک ہے دلہن۔۔۔۔۔ ہم منع نہیں کر رہے پر ' شادی شدہ زندگی کی کامیابی کا ایک زاویہ بھی ہے کہ اپنی کہ اپنی مرضی چلانے کے بجاۓ شوہر کی مرضی پر چلو۔۔۔۔۔ دیکھنا وہ خود تمہارا عادی ہو جاۓ گا۔ آخر میں ہو گا وہی جو تم چاہو گی۔ خیر۔۔۔۔ ایسا کرو' امان کو فون پر مطلع کر دو ' پھر بھلے ہی چلے جانا۔" انہوں نے نرمی سے سمجھایا تو وہ سر ہلا کر کمرے کی طرف بڑھ گئی تاکہ شوہر سے بات کر سکے۔
" ارے یہ کیا۔۔۔۔؟ امان کی اتنی ساری میسڈ کالز۔۔۔۔۔" خوشی نے ڈریسنگ سے اپنا سیل فون اٹھایا تو چونکی۔ اس نے فورا نمبر ملایا۔
" واہ۔۔۔۔ واہ۔۔۔۔ جانو۔۔۔۔ صحیح کہتے ہیں۔ دل سے دل کو راہ ہوتی ہے' میں ابھی تمہارا نمبر ہی ملا رہا تھا۔" امان نے پہلی بیل پر ہی کال ریسیو کی اور چہکا۔
" خیریت۔۔۔۔ آپ نے اتنی دفعہ کال کی ۔۔۔۔۔۔ میں مما کے پاس تھی؟" اس نے اپنی بات کہنے سے پہلے شوہر کی سننا چاہی۔ ساس کی باتوں کا اثر تھا۔
" ارے یار۔۔۔۔ آج میرے سارے دوستوں نے مل کر ہم دونوں کو ڈنر پر انوائٹ کیا ہے ۔ بس تم اٹھ بجے تک تیار رہنا۔" امان بڑا پر جوش ہو رہا تھا۔
" وہ ۔۔۔۔ سنیں۔" خوشی کی آواز حلق میں ہی گھٹ گئی۔
" ہاں۔۔۔۔ ہاں آپ ہی کی تو سنتا ہوں۔ اچھی طرح تیار ہونا ' میرے سارھ دوستوں کی بیویاں شادی کے بعد آج پہلی بار تم سے ملیں گی۔۔۔۔ ایسا کرو' اپنا میرون والا سوٹ پہن لو' جو میں نے اس دن بوتیک سے دلایا تھا۔۔۔۔۔ تم مجھے اس لباس میں بہت اچھی لگتی ہو۔" اس کے سننے کی بجاۓ وہ اپنی سنانے میں لگا رہا۔ خوشی لب چباتے ہوۓ اس کی سنتی چلی گئی۔
" آج تو تم سچ مچ بہت پیاری لگ رہی تھیں۔" امان نے اس کے لمبے بالوں کو چھو کر کہا' جو اڑ اڑ کر اس کے ہوش اڑا رہے تھے۔ خوشی کو احساس ہوا کہ شوہر کو ڈرائیونگ میں دشواری ہو رہی ہے۔ اس نے جلدی سے بالوں کو سمیٹ کر جوڑا باندھ لیا۔