" آج تو خیر نہیں۔۔۔۔۔ مما۔۔۔۔۔۔ یقینا غصہ کریں گی۔" دل ہی دل میں خوفزدہ ہو گئی۔
" میں نے قیمے میں تھوڑا سا دودھ ڈالا ہے' اس سے جلنے کی مہک نکل جائے گی' اصل میں امان کو جلا سالن بالکل پسند نہیں۔ کچھ آلو جو جل گئے تھے' انہیں اس میں سے نکال کر دوسرے آلو ابال کر ڈال دیے ہیں ۔ پانچ منٹ دم پر رکھا ہے۔ اب تم دیکھ لینا مجھے ارشد کا سکول ایڈمیشن کروانا ہے۔ اس لیے صالحہ کے پاس جا رہی ہوں۔ وہ آج کل ایک اسکول میں پرنسپل ہے۔"
کورشیدہ اس سے یوں مخاطب تھیں جیسے یہ کوئی معمول کی بات ہو۔ ساتھ ساتھ ان کے ہاتھ تیزی سے چل رہے تھے۔ صالحہ ان کی چھوٹی نند کا نام تھا۔ یقینا اب وہ اس غریب بچے کی تعلیم کی ذمہ داری بھی اٹھائیں گی۔ اس سے پہلے تو وہ اپنی غلطی پر نادم سوچے جا رہی تھی کہ آج تو ساس بہو میں خوب جھگڑا ہو گا' مگر ان کے ماتھے پر تو ایک بل نہ آیا۔ وہ ہونٹ بھینچے ان کے منہ سے اس بچے کی داستان غم سنتی رہ گئی۔
کیا ساس بھی ایسی ہوتی ہیں؟ اس کی ماں بھی تواس کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کی یوں ہی پردہ داری کرتی تھیں ' مم بھی تو ماں ہی ہیں۔ پہلے امان کی اب اس کی۔اس نے انہیں نم آنکھوں سے دیکھا۔
" وہ۔۔۔۔۔۔اصل میں شام کے لیے آلو قیمہ چڑھا کر لیٹی۔۔۔ تو۔۔۔۔جانے کیسے آنکھ لگ گئی۔۔" خوشی نے ان کے بغور دیکھنے پر صفائی پیش کی۔
" کوئی بات نہیں کبھی ہوجاتا ہے۔" انہوں نے ان کے کاندھے پر اپنا ہاتھ نرمی سے رکھ کر تسلی دی اور باہر نکل گئیں۔ خوشی پیچھے سے ان کی چوڑی پشت دیکھتی رہی۔ وہ اس کے سسر کے مقابلے میں انتہائی معمولی شکل کی تھیں' پھیلا جسم ' قدرے گہری رنگت' البتہ ان کے نقوش انہیں جاذب نظر بناتے تھے۔ اس کے باوجود اشتياق انور بیوی کے شیدائی تھے۔ گھر کا ہرکام ان کی مرضی سے ہوتا۔ باپ بیٹا' ان کی ہی بات کو اولیت دیتے۔ خوشی تو یہ سب دیکھ دیکھ کر حیران ہوئی جاتی۔
اس بات سے نا آشنا کہ وقت ہمارے دامن میں صرف پھول ہی نہیں کانٹے بھی بکھیر دیتا ہے۔ ان کے باہم ملن سے حاصل ہونے والی چبھن اور راحت کا نام ہی زندگی ہے۔
" مما ۔۔۔۔۔ وہ میں امی کے گھرجانا چاہ رہی تھی۔" خوشی نے تھوڑا گھبرا کر کہا۔ وہ چار روز قبل ہی تو میکے سے لوٹی تھی۔ شادی کے بعد پہلی بارامان نے بڑی مشکلوں سے ایک ہفتہ رکنے کی اجازت دی۔ روز اس کے میکے فون کھڑکھڑا کر اپنی بے تابیوں کا حال سناۓ جاتا۔ وہ بھی مسکرا مسکرا مسکرا کر شوہر کی بے قراریوں سے لطف اٹھاتی۔ اس کے اصرار پر بہت جلدی گھر نہ لوٹی۔ میکے کے حالات نے اسے یہاں رکنے پر مجبور کیا۔
بڑے بھائی کا اترا چہرا اسے بہت ڈسٹرب کر رہا تھا۔ روٹھی بھابی اور ماں کو الگ الگ بٹھا کر پیار سے سمجھایا۔ دونوں کے بیچ تناؤ کو کم کرنے کے لیے بڑا زور لگایا۔ اس کے خلوص کا کچھ تو اثر ہوا کہ عمیمہ نند کے سامنے ساس سے مسکرا کر بات چیت کرنے لگی' ورنی اس سے قبل تو وہ دونوں ایک دوسرے سے کلام کرنے کی بھی روادار نہ تھیں۔ وہ پر سکون ہو کر امان کے ساتھ سسرال لوٹ آئی۔