SIZE
4 / 6

"جی!" تعجب سے ایک لمبی جی اس کے منہ سے نکلی تھی، ابو جی جھلا گئے۔

" بے وقوف کیا جی ، جی لگا رکھی ہے۔ فہیم کہہ رہا تھا کہ ذرا گھومے پھرے نہیں تو طبیعت خراب ہو جاتی سنی۔ سلانٹی ولانٹی بھی شوق سے کھاتا ہے، جاو اسے گھماؤ گلی میں۔

" اففف" علی کو یقین ہو گیا کہ فہیم کی موت اس کے ہی ہاتھوں لکھی ہے۔

" آج تو مال آنا ہے۔ چھت سے بکرے کو سیر کرانے نیچے لانا اور پھر واپس اوپر لے جانے کا خیال اسے گھبرا گیا۔

"تو میں ہوں نا یہاں نکمے، تمہیں جو کہا ہے وہ کرو۔ "ابو نے حسب عادت جھاڑ کر فون بند کر دیا۔ مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق وہ سنی کو لینے چھت کیطرف چلا۔ غیر متوقع طور پر وہ بہت آرام سے سیڑھیاں اتر کر اس کے ساتھ باہر آ گیا۔ یہ کام اتنا مشکل بھی نہیں تھا جتنا وہ سمجھ رہا تھا۔ جب وہ آرام سے رسی تھامے گنگناتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ اس لمحے شاید سیٹی کی دھن کو سنی صاحب نے ریس کی ابتدائی سیٹی سمجھا اور رسی چڑھا کر بھاگا ۔علی

ہڑبڑا کے اس کے پیچھے بھاگا ، چند لمحوں میں وہ اس کے برابر تھا۔ اتنے میں سامنے سے آتی دوشیزہ بمعہ والدہ نے جو یہ "بکروں کی دوڑ دیکھی تو نہ صرف گلی کے کنارے دیوار کے ساتھ لگ گئیں بلکہ اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ کر اور آنکھیں بند کر کے لڑکی نے وہ چیخیں ماریں کہ سرپٹ دوڑتے سنی صاحب نے بھی سن لیں اور اسے دوڑ کی اختتامی گھنٹی سمجھتے نہ صرف رک گئے بلکہ ازخود اپنے آپ کو فاتح سمجھتے ایوارڈ لینے سر اکڑا کر ان خواتین کے پاس کھڑے ہو گئے۔

علی بھی ہانپتا ہوا ساتھ ہی پہنچا تھا۔

" شرم نہیں آتی تمہیں قربانی کے جانور کو یوں بھگاتے۔"

آنٹی نے کڑے تیوروں سے اسے دیکھا جبکہ دوشیزه سنی کے الزام میں نظریں جھکائے ، کانپتے ہاتھوں سے آنٹی کے پیچھے چھپنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔

" میں نہیں یہ مجھے بھگا رہا تھا۔

علی نے احتجاج کرنا چاہا مگر سن کون رہا تھا۔ اتنے میں یونیورسٹی سے تھکی ہاری سارہ گلی کا موڑ مڑتی آئی اور سامنے کے منظر کو دیکھ کر اس کی آنکھیں کھلی رہ گئیں۔

ڈانٹ ڈپٹ کرتی آنٹی، ہراساں حسینہ اور مجرم اس کا شوہر۔ تھکن سے چور قدموں میں ایک دم تیزی آئی اور وہ لمحوں میں ان کے پاس پہنچی۔

" کیا ہوا آنٹی؟"

اس نے براہ راست ماجرا دریافت کیا تھا۔

" خود ہی پوچھ لو" " انٹی" " ہونہہ" کرتی آگے بڑھ گئیں لرزتی مشرقی حسینہ ان کے پیچھے لپکی اور پیچھے عدالت میں علی اکیلا رہ گیا۔

" میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ تم ایسا بھی کرو گے ۔ اپنے ہی محلے کی لڑکی کو چھیٹرتے ہو۔" ساره شاکڈ تھی۔ اس عجیب صورتحال میں بے اختیار علی کے منہ سے نکلا۔

" یہ اپنے محلے کی ہیں ۔ مجھے نہیں معلوم تھا۔"

" تم نے اسے دوسرے محلے کی سمجھ کر چھٹرا، یعنی یہ تمہارا کام ہے۔ " علی سے صفائی پیش کرنے کی جو موہوم سی امید سارہ کے دل میں تھی وہ بھی غائب ہوئی ۔ صدمے سے اس کی آواز رندھ گئی۔

" تمہارا دماغ خراب ہے۔ اپنی ماں کے ساتھ جاتی لڑکی کو کوئی پاگل ہی چھیڑے گا۔ علی نے کچھ سٹپٹا کر بگڑتے ہوئے صفائی پیش کی۔

" تو تم اکیلی لڑکیوں کو تنگ کرتے ہو۔ میرے لیے تمہارے پاس وقت نہیں اور یوں راہ چلتے ۔۔۔۔۔" سارہ بھی ابو پر ہی گئی تھی۔ اس کی سنے بنا اپنے قائم کردہ نتائج پر مہر ثبت کرتے اب وہ غصے سے بلند آواز میں بول رہی تھی۔ جب گھر کا دروازہ کھلا اور ایک اور آنٹی نے سر نکال کر دخل دیا۔

" بری بات بیٹا۔ گلی میں کھڑے ہو کر مت لڑو، جو مسئلہ ہے گھر جا کرسلجھاؤ۔" آگ برساتی نظروں سے اسے گھورتی، پاؤں پٹختی چلی گئی تھی۔ علی سر پکڑے سوچ رہا تھا کہ ان تایا بھتیجی کے ساتھ زندگی کیسے گزرے