گی ۔ سنی جو پہلے رسی چھڑا چھڑا کر بھاگ رہا تھا۔ اب اطمینان سے کھڑا جگالی کر رہا تھا۔ محلے دار انٹی آدھی سنی بات پر اسے نصیحتیں کر رہی تھیں۔
ساره اتنے غصے میں تھی کہ کال بھی ریسیو نہیں کر رہی تھی۔ گھر جاتا تو اکیلے بات کرنے کا موقع نہ ملتا، آخرسنی کو سیر کرانے کے بہانے وہ رات کو سارہ کے گھر کے سامنے والے پارک میں چلا آیا۔ بہانے کی ضرورت یوں تھی کہ خاص چھٹی اسے سنی صاحب کے اعزاز میں ہی ملی تھی۔ پارک میں سنی کی رسی مضبوطی سے تھامے وہ سارہ کے واک کے لیے آنے کا انتظار کر رہا تھا۔ سارہ نے اندر آتے ہی اسے دیکھ لیا تھا۔ اس کا میسج پڑھ چکی تھی سو واپس جانے یا اس کے پاس آنے کے بجائے اندر آ کر ٹہلنے لگی۔ اتنے نخرے کرنا تو وہ اپنا بنیادی حق سمجھتی تھی۔ علی اس کے برابر آ کر چلنے لگا۔ اس کا مزاج آشنا تھا سو جان گیا کہ اس کی غلط فہمی دور ہو چکی ہے ورنہ وہ اسے دیکھتے ہی پلٹ جاتی۔
"آج تمہاری جذباتیت نے میرا کردار مشکوک کردیا۔ تمہیں میں ایسا لگتا ہوں۔" ساتھ چلتے علی نے خفگی سے بات کا آغاز کیا۔
"میرا کیا قصور، وہ منظر ہی ایسا تھا۔ پھر تم بھی درست بات بتانے کی بجاۓ الٹا سیدھا بولے جا رہے تھے۔" سارہ اپنی غلطی مان لے گی، اس بات کا تو کبھی علی نے تصور بھی نہیں کیا تھا سو خاموشی سے جواب شکوہ سنا۔ "دیکھو ابھی بھی تم اسے ساتھ لیے گھوم رہے ہو۔ دال میں کچھ تو کالا ہے ناں" اس کی خاموشی سے شہ پا کر سارہ نے سنی کی طرف اشارہ کرتے کہا۔ علی تڑپ کر رہ گیا۔
" دماغ خراب ہے تمہارا تو" اس کے ایک دم غصے میں آ جانے پر سارہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
"دیکھوتم مجھ سے کیسے بات کر رہے ہو۔ میں تمہیں یونیورسٹی ڈراپ کرنے کا بولوں تو تمہاری نیند خراب ہوتی ہے۔ اسے صبح ناشتا کرواتے ہو۔ "یہ یقینا سیف کی رپورٹنگ تھی۔ علی تلملایا۔ سارہ ابھی بھی بول رہی تھی۔" تمہیں واک کے لیے بلا لوں تو اسٹور پر ہوتے ہو۔ آج اسے واک کروا رہے ہو تو اسٹور پر مسئلہ نہیں ہو رہا۔"
چھلکتی آنکھوں سے اس کا بیان جاری تھا۔ علی تعجب سے منہ کھولے اپنی بیوی کو دیکھ رہا تھا جو ایک بکرے سے اپنا مقابلہ کر رہی تھی۔ اللہ جانے یہ محبت کی زیادتی تھی یا بے وقوفی کی۔ " سارہ میری پیاری سارہ۔ قربانی کا جانور ہے۔ ابو یہ چاہتے ہیں کہ اب کی بار ہم عین وقت پر جانور لا کر ذبح کرنے کی بجاۓ اس کی خدمت کر کے ثواب کمائیں۔
" دیکھو کتنے پیار سے تمہیں دیکھ رہا ہے۔" پیار سے سمجھاتے علی نے اس کی توجہ سنی کی طرف دلائی۔
یوں ادھر ادھر کی باتیں کرتے کتنی دیر واک کرنے کے بعد جب وہ گھر کی طرف مڑا تو موڈ بہت ہی خوش گوار تھا۔ اسے سنی پر بھی پیار آ رہا تھا۔ آج اس کی وجہ سے کتنے عرصے بعد اس کی سارہ سے یوں فرصت سے ملا قات ہوئی تھی۔ گھر آتے ہی اس کے مزاج کی خوش گواریت اڑ گئی تھی۔
" کہاں تھے صاحبزادے؟" ابو جی بے چینی سے ادھر ادھر ٹہل رہے تھے۔
" سنی کو واک کروانے گیا تھا۔ امی کو بتایا تو تھا۔" اس نے حیرت سے کہا۔
" اتنی دیر ٹہلا نے کا بھی نہیں بولا تھا کہ اس کی ٹانگوں میں ہی درد ہو جائے۔ اب اس کی مالش کون کرے گا۔" ان کی فکریں نرالی تھیں ۔ علی ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گیا۔
" سارہ سے ملوایا سنی کو" انہوں نے پوچھا۔