سارہ اس کی نصف بہترتھی اور وہ دونوں مل کر کچھ بہتر ہو ہی جاتے۔ دیکھا جاتا تو علی سارہ سے زیادہ خوب صورت تھا لیکن مجنوں کی طرح اسے ببھی اپنی لیلیٰ ہی اچھی لگتی۔ سارہ کی یونیورسٹی میں میٹرک فیل علی سے زیادہ زہین فطین لڑکے پڑھتے تھے مگر علی کے سامنے اسے کوئی نہ بھاتا۔ باقی رہ گیا مزاج وہ دونوں کا ہی "خاندانی" تھا۔ یعنی زندگی میں سب اچھا تو
نہیں ہوتا نا۔ سوقصہ یوں ہوا کہ وہ دونوں نکاح کے بعد اپنے اپنے گھر میں سکون سے رہ رہے تھے۔ پھر سارہ کی کلاس فیلو کی منگنی ہوگئی۔
اس کا منگیتر مانگے کی بائیک پر بھی ہفتے میں ایک دو بار اسے گھر چھوڑنے جاتا ورنہ اکٹھے بیٹھ کر پوائنٹ کا انتظار کرتے وہ یونیورسٹی کے چپے چپے پر اپنی داستان محبت کے نقوش چھوڑتے۔ ان کے روز روز کے قصے سے متاثر ہو کر سارہ نے اپنے خوب صورت ، سیٹلڈ منکوح سے اس کی چمکتی کرولا میں یونیورسٹی پک اینڈ ڈراپ کرنے کی ننھی سی فرمائش کر دی ۔ یہ فرمائش علی پر بجلی بن کر گری تھی۔ اگر صبح سویرے اٹھ کر یونیورسٹی ہی جانا ہوتا تو وہ خود نہ پڑھ لیتا۔ دوپہر کو جب سارہ کی واپسی ہوتی ، اس وقت تو وہ بمشکل اپنے گارمنٹ اسٹور پر کیا کرتا تھا۔ اس وقت بھی نہ اتا تو ملازمین کرولا چھوڑ سائیکل کے قابل بھی نہ چھوڑتے۔
اپنی خواہش پوری نہ ہونے اور اپنے اپس کی نوک جھوک کا بدلہ لینے اب سار ضرور سیف کی تعلیمی کارکردگی بتانے، چھٹیوں کی وجہ جاننے یا کچھ اور بہانہ بنا کر اسے بلا لیتی۔ نہ وہ سیف کو پڑھانا چھوڑتی تھی نہ اسے بلانا۔ درمیان میں پھنستا تھا سیف بے چارہ۔ دل لگا کر پڑھنا چاہتا تو اب آئے دن ادھر ادھر کے کاموں میں الجھاتا۔ پھر سارہ باجی جو دنیا جہاں کے بچوں کو پیار محبت سے پڑھا کر اسے دیکھتیں تو شاید یاد آتا۔ " سفارشی "، "تمہارے علی بھائی" اور اس طرح کے طنز تو اس کا معمول تھے۔ سیف نے ایک بار تو علی کو کہہ ہی دیا تھا۔
" آپ کے ساتھ جا کر پھنس گیا۔ خود جا کر درخواست کر لیتا تو بھی سارہ باجی نے بخوشی پڑھا دینا تھا بلکہ بغیر ڈانٹ کے پڑھ لیتا۔ یہ اور بات کہ یہ کہنے کے بعد جو صلواتیں علی سے سننی پڑیں، وہ سارہ کے مقابلے کی ہی تھیں کیونکہ "خوش کلامی" تو ان کا خاندانی وصف تھی۔ ابھی بھی علی کا ردعمل دیکھ کر سیف منہ بنا کر بیٹھ گیا تو بالاخر اسے ترس آیا۔
"چلا جاؤں گا یار، ایسے منہ تو مت لٹکاؤ۔" اس کی اتری صورت دیکھ کر آخر علې نے بمشکل اسے تسلی دی۔ اس کے علاوہ اور کون شیرنی کا سامنا کر سکتا تھا۔
مسئلہ حل ہو تے ہی سیف غائب ہو گیا اور سنی کو ناشتا کروا کر نیچے جاتے علی نے دانت پیسے۔
" بدتمیز، رک جاتا تو دو گھنٹے بعد اسے چارا کھلا جاتا۔ " مگر اب کوئی اس کا غصہ دیکھنے کو موجود نہیں تھا۔ وہ نیچے اترا تو ابو جی اسٹور پر جانے کو تیار تھے۔ موڈ بھی خوش گوار تھا۔
" آ گیا میرا جگر۔ بس بیٹا مجھے سیڑھیاں چڑھنے کا مسئلہ ہے ورنہ تو خود ہی سنبھال ليتا سب۔" چھڑی دکھاتے انہوں نے پیار سے کہا۔ وہ سر ہلا کر رہ
گیا۔ اب کیا یاد دلاتا کہ ماشاء اللہ وہ بالکل فٹ تھے۔ چھڑی انہوں نے چلنے میں مدد کے لیے ہرگز نہیں لی تھی۔
جن دنوں میں شہر کی امن و امان کی صورتحال مخدوش تھی اور گرد و جوار کے دو ، چار لوگ اپنے موبائل گنوا چکے تھے تو متوقع لٹیروں کے ڈر سے
انہوں نے کچھ حفاظتی اقدام کرنا چاہا۔ چاہتے تو وہ مشین گن رکھنا تھے لیکن احباب کے سمجھانے پر بات رائفل، پسٹل سے ہوتی اس چھڑی پر آ کر ٹھہری، جس میں ایک عدد چاقو پوشیدہ تھا اور بٹن دبانے سے نکلتا۔ علی کے خیال میں تو یہ چھڑی بھی اضافی تھی کہ وہ کوئی موبائل یا قیمتی سامان رکھنے کے عادی نہ تھے اور لٹیروں سے بھڑنا تو یوں بھی خطرناک ہوتا۔ مگرعلی کی وہ سنتے کب تھے۔ سو اہتمام سے چھڑی لے کر گھومتے کہ کوئی کچھ کہے تو بھی وہ موقع ڈھونڈ چھڑی استعمال کر سکیں۔ چاقو گھر سے باہر تربوز اور خربوزے کاٹنے کے کام آتا۔
سنی کو ناشتا کروا کر علی دوبارہ سو گیا تھا۔ باره بجے اٹھ کر جب وہ اسٹور جانے کی تیاری کر رہا تھا تو ابوجی کا فون آ گیا۔
"چارہ وغیرہ کھلا دیا سنی کو"
" جی ابو" اس نے تابعداری سے جواب دیا۔
" وہ ایسا کرو کہ سنی کو ساتھ لے جا کر کچھ پاپڑ وغیرہ لا دو دکان سے " وہ معمول کے انداز میں یوں کہہ رہے تھے جیسے کسی بچے کا ذکر ہو۔