وہ اپنے تجسس پر قابو نہیں رکھ پایا تھا۔ ساری باجیوں، ان کے بچوں سب سے واقف تھا۔ بس ایک ہفتے کے لیے ابا کے ساتھ گاؤں ہی تو گیا تھا، اتنے میں یہ کون آ گیا جس کی خاطر داری کے لیے سب پریشان تھے۔ اماں نے جواب دینے کے بجائے مسکرا کر اسے دیکھا پھر پھولے منہ کے ساتھ کچن کی طرف آتے علی کو۔
" سیف اوپر لا رہا ہے ناشتہ بیٹا' جاؤ سنی سے مل آؤ۔" انہوں نے بیک وقت دونوں کو مخاطب کیا تھا۔ وہ متفرق خیالوں میں گھرا علی بھائی کے پیچھے چھت پر پہنچا تو چھت پر بنے کمرے میں ایک خوب صور سا بکرا نظر آیا۔ علی اس کے آگے سے پانی کی بالٹی اٹھا کر کونے میں لگے نل کی طرف لے جا رہا تھا۔
" تم جھاڑو لے کر کمرا صاف کرو۔ ایسی گندگی میں ناشتہ نہیں کرتا سنی۔" علی نے بالٹی دھو کر بھرتے سیف کو ہدایت دی۔
" سنی ہے کون اور کہاں؟" ٹرے رکھ کر جھاڑو اٹھاتے اس نے سوال داغا۔
"یہ سامنے تمہیں نظر نہیں آ رہا ، جس کے کیے دھرے کو سنبھال رہے ہو۔" نیند سے جگاۓ جانے کا دکھ ابھی گیا نہیں تھا۔ انسانی فطرت بھی یہی ہے کہ طاقت ور سے دبتا اور کمزور کو دباتا ہے۔ تب ہی ابو جی کی مار کی چڑچڑاہٹ سیف پر نکالتے علی نے بکرے کی طرف اشارہ کیا ۔ سیف کا منہ کھلا رہ گیا۔
" یہ ہے سنی، یہ ہے اس کا ناشتا ہے۔" وہ بے یقینی سے پوچھ رہا تھا۔ کبھی ناشتے اور کبھی سنی کو دیکھتے اس کا چہرا قابل دید تھا۔
" جی، یہ عید قرباں کے لیے پال رہے ہیں ۔ ابا جی نے اس کا نام سنت ابراہیمی رکھا تھا۔ اب پیار سے سب سنی کہتے ہیں ۔" سیف کے تاثرات نے علی کو مزا دیا تھا۔ وہ آرام سے پانی کی بالٹی رکھ کر ٹرے لے کر بکرے کے سامنے بیٹھتا ہوا بولا۔
" تو یہ ناشتے میں چائے، پایا کھاتا ہے۔ بکرے تو پتے کھاتے ہیں نا۔ " گند سمیٹ کر ہاتھ دھونے کے لیے جاتے اس نے پوچھا۔
" یار پھپھو پالتی تھیں بکرے وقت گزاری کے لیے، بہت لاڈوں سے۔ اب فہیم کی نوکری کی وجہ سے وہ دوسرے شہر شفٹ ہو گئے تو یہ ابو نے قربانی کے لیے رکھ لیا' عید بھی تو آنے والی ہے۔ اب روز فون آ جاتا ہے وہاں سے۔ اس ٹائم یہ پاپے کھاتا ہے تو اس ٹائم بسکٹ، چاول ، سبزی ، چارا اتنا کچھ تو انسان نہیں کھاتے ، جتنا یہ کھاتا ہے وہ بھی مقررہ وقت پر۔ حتی کہ سافٹ ڈرنک بھی پیتا ہے۔" علی نے جلے بھنے انداز میں تفصیل سنائی۔
" اوہ " سیف تاسف سے اسے دیکھتا رہ گیا تھا جو پاپے چاۓ میں ڈبو کر بکرے کو کھلا رہا تھا۔ زبانی ہمدردری کرنا بھی خطرے سے خالی نہ تھا۔ جیسے علی بھائی ابو جی کے سامنے مجبور تھے، اسی طرح وہ علی بھائی کے نرغے میں آ جاتا تو اس انوکھے لاڈلے کے تمام کام اس کی ذمہ داری بن جاتے۔
" قربانی کا جانور ہے خدمت کریں گے تو ثواب ملے گا۔" اس نے دلجوئی کی۔
" ابو جی کے نام کی قربانی ہے میری نہیں۔ اس سے آدھی خدمت اپنی ماں کی کر لوں تو جنت پکی۔" علی نے سر جھٹکا۔
" اللہ تعالیٰ آپ کی طرح ناپ تول کر نہیں دیتے کہ کس کے نام کی قربانی ہے ، اس سے تجارت فائدہ ہی دیتی ہے۔ کام تو کر رہے ہیں ۔ اچھی نیت سے کر لیں تو قربانی کا ثواب کیا دور ہے۔" سیف نے بے اختیار طنز کیا تھا۔ ان لوگوں کا مین مارکیٹ میں بہت بڑا گارمنٹ اسٹور تھا اور کاروبار میں علی کا دماغ خوب چلتا تھا۔ بات علی کو کچھ شرمندہ کر گئی تو کھسیاہٹ چھپانے کو بولا۔ "تم بتاؤ، کیوں صبح صبح میرے سر پر سوار ہو۔"
سیف سٹپٹا گیا، پھر مناسب الفاظ ڈھونڈتے ہوئے بولا۔
" سارہ باجی نے بلایا ہے آپ کو۔ ابا زبردستی گاؤں لے گیا تھا جی ، ایک ہفتہ کی چھٹی ہو گئی" اس کا لہجہ عاجزانہ ہو گیا۔ علی کے یکدم چونک کر گھورنے پرشکل بھی فقیرانہ کر لی۔ چند لمحے اسے گھور کر علی نے ٹھنڈی
سانس بھری تھی ۔ یہ اس کی وہ نیکی تھی جو گلے پڑ گئی تھی۔
" مجھے یہ بتاؤ کہ میں تمہاری ماں ہوں یا باپ' مجھے کیوں لائن حاضر کر لیتی ہے تمہاری سارہ باجی۔
تمہیں بھی ویسے تو پڑھنے کا بہت شوق تھا اب جب دیکھو چھٹی کر لیتے ہو" اس نے بے بسی سے آخر میں پھر اسے گھورا۔ سیف چپ ہی رہا۔ اسے واقعی پڑھنے کا واقعی بہت شوق تھا۔ اماں بھی پڑھانا چاہتی تھیں لیکن ابا کو لگتا کہ اسے پڑھائی کی عیاشی مل گئی تو کل کو محنت سے جی چراۓ گا۔ جانے کیسے ایک بار علی بھائی کے سامنے ذکر ہو گیا تو انہوں نے اماں کو ہر ماہ اس کے تعلیمی اخراجات کے نام پر علیحدہ رقم دینا شروع کر دی۔ پیسے ملے تو ابا بھی چپ ہو گیا۔ پڑھائی میں مشکل آتی تو اماں پھر علی بھائی کے پاس لے آئی۔ وہ خود کون سا پڑھے لکھے تتے جو اسے پڑھاتے، ساره باجی کے پاس چھوڑ آئے ۔ بس یہی غلطی کی۔
" کاش میں پیسے بچانے کے لیے اسے سارہ کے چھوڑنے کے بجائے ٹیوشن لگوا دیتا۔ " علی نے خود پر افسوس کیا تھا۔