SIZE
2 / 7

دن میں بیداری کے بعد ماں کی صلواتوں کے ساتھ انڈا پراٹھا نوش کیا جاتا اور پھر دروازے کا رخ کر لیا جاتا۔ بے چارہ جمیل دن کا نکلا پھر رات گئے گھر لوٹتا۔

ایسا نہ تھا کہ احسن الدین کی تمام اولاد ایسی ہی نا معقول اور پا جی تھی۔ یہ تو صرف جمیل میاں تھے جو سب سے الگ اور سب سے جدا کی عملی تفسیر بنے بیٹھے تھے۔ اگر ایک انڈہ وہ بھی گندا ہوتا تو یقینا احسن الدین اور ان کی زوجہ کی راتوں کی نیندیں حرام ہو جاتیں۔ مگر یوں آدھے درجن انڈوں میں ایک آدھ انڈا گندا نکل بھی آئے تو بھی معاملہ چل جاتا ہے۔ احسن الدین اور ان کی زوجہ کے گھر ماشاءاللہ بچوں کی بہتات تھی۔ سو جمیل کی خطائیں، نادانیاں اور سرکشی اکثر وبیشتر نظر انداز ہو جاتی۔ لامحالہ اگر علم میں آ جاتی تو زیادہ سے زیادہ احسن الدین اپنے بڑے بیٹے کی کمر سے بیلٹ اتارتے اور جمیل میاں کے ساتھ چھ ماہ میں کوئی ایک آدھ بار ہی گزرتا........... اور نتیجہ یوں نکلتا کہ جمیل میاں پورے دن کے ساتھ ساتھ اس پوری رات میں بھی غائب رہتے۔

مسئلہ یہ تھا کہ کثرت اولاد کے باعث ماں جی جمیل پر وہ توجہ نہ دے پاتیں جو انہیں دینی چاہیے۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ اس غفلت سے اس کے بڑے بہن بھائیوں نے خوب فائدہ اٹھایا اور بے چارے جمیل پر ناحق رعب جمایا۔ جمیل میاں اس رعب و دبدبے کے آگے بے بس ولاچار نظر آتے۔ اماں جی اس برادرانہ سیاست سے لاعلم ہیں۔ ویسے بھی وہ نئے مہمان کی تیاری میں مصروف تھیں۔ کچھ طبیعت کی خرابی کے باعث چڑ چڑا پن بھی مزاج میں عود آیا تھا۔ لہذا جمیل میاں کی شکایتوں پر توجہ بھی شاذ و نادر ہی دی جاتی۔ اور اس بات کا فائده بھائیوں کی ٹیم نے خوب اٹھایا۔

" چھوٹے پانی لا کر دو، چھوٹے جوتے مرمت کرا کر لاؤ، چھوٹے ذرا فون تو اٹھاؤ، چھوٹے پیر دباؤ' چھوٹے ذرا باہر سے مستری بلا کر لاؤ، چھوٹے

کپڑے جلدی استری کر دو، ذرا دروازہ کھول اؤ ، بھاگ کر پانی تو لے کر آؤ ذرا۔" یہ سارے فقرے جمیل میاں کی سماعتوں میں رفتہ رفتہ زہر گھولنے لگے۔ کچھ بڑے ہوئے تو دوستوں کو ساتھ پڑھنے کے بہانے زیادہ تر وقت باہر گزارنے لگے آہستہ آہستہ تعلیم سے توجہ ہٹنے لگی۔ اور گھر میں بھاگ بھاگ کر کام کرنے سے بھی نجات مل گئی۔ جمیل میاں گھر سے وقت بے وقت باہر بھاگتے لپکتے چور راستے ڈھونڈنے لگے۔ کسی بھیا نے کوئی کام دیا وہ آدھا گھنٹے کا کام گھنٹا، ڈیڑھ گھنٹے میں کر کے آتے۔ بہانے ان کے پاس کئی ہوتے۔ سب سے پہلے بڑے بھیا نے یہ بات نوٹ کی اور خوب کھچائی کی۔ پھر بھی نہ سدھرے تو ابا جی کے علم میں بات لائی گئی۔ خوب چھترول ہوئی۔ جمیل میاں خاموشی سے پٹتے جاتے، اف بھی نہ کرتے۔ مگر رات سوتے وقت ان کی آنکھوں سے خاموشی سے آنسو بہاتے جاتے۔ اختیار کی جانے والی خاموشی سرکش اور باغیانہ خیالات کو جنم دیتی۔ یہ سوچ پریشان کرتی کہ نہ اماں کو ان کے دل کے حال کی خبر نہ ابا کو۔ نہ توجہ ملی، نہ پیار ملا۔ فقط رعب اور مار ہی انہیں اس گھر سے ملتی آ رہی تھی۔ اس خیال نے جمیل میاں کو مزید سر کشی اختیار کرنے پر امادہ کیا۔ سو پہلے سے زیادہ وقت باہر گزرنے لگا۔ دوستوں کی صحبت انہیں گھر والوں سے زیادہ عزیز ہوتی چلی گئی۔ اور صحبت ہی رنگ لاتی ہے۔ بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ جمیل میاں میں تبدیلیاں بھی بڑی بڑی رونما ہونے لگیں۔ جن کا ادراک ابا جی کو بڑی دیر سے ہوا۔

رمضان کا بابرکت مہینہ تھا۔ کومل بی بی نے بڑے خشوع وخضوع کے ساتھ عبادتوں کی تیاری کی تیاری کی۔ تیاری کا مطلب تو یقینا سمجھ گئے ہوں گے آپ۔ ارے نہیں سمجھے۔۔۔۔ بھئی بڑے نا سمجھ ہیں آپ!

پچھلے سال چچا جی عمرہ پر گئے تھے۔ وہاں سے بڑی خوب صورت جائے نماز اور تسبیح لے کر آئے تھے۔ اماں سے ضد کر کے کومل نے وہ جائے نماز اور تسبیح نکالی۔ اور فجر کی نماز بڑے اہتمام کے ساتھ ادا کی۔ البتہ نماز کے بعد تسبیح کے دانے گنتے ہوۓ تصوير بنانا نہ بھولی۔

صبح سویرے فیس بک پر تصویر اپلوڈ ہوئی۔ سارے نمازی جاگے ہوۓ تھے۔ اس پر نور عبادت پر دل کھول کر داد دی۔ خوب سبحان اللہ، سبحان الله ہوئی۔ کومل کے لیے بے حد خوش ہوئیں۔ داد تحسین محترمہ کوفیسں بکی دنیا کا مزید دیوانہ بنائے دے رہی تھیں۔ اب کومل جب بھی افطاری بنائی صرف گھر والوں کے ساتھ تناول نہ کرتی۔ بلکہ فیس بک کے چالیس پچاس دوستوں کے ہمراہ کرتی اور ایسا کیوں نہ کرتی بھئی۔۔۔! فیس بکی دوست اسے چاہتے بھی تو اتنا تھے۔