اب اس نے جو پتھر کی طرح سخت دہی بھلے بنائے تھے۔ گھروالوں نے تو خوب مذاق بنایا تھا۔ مگر فیس بکی دوستوں نے تو خوب تعریفوں کے ڈونگرے بجائے۔ بھلا اگر دہی بھلے خراب بنتے تو کیا دوستوں کو نظر نہ آتے۔ سو ڈیڑھ سو لوگوں نے پسند کیا تھا، اس کے دہی بھلوں کو اور گھر کے چند افراد اس کے دہی بھلوں کو ناپسند ٹھہرا رہے تھے۔ جمہوریت کا زمانہ ہے بات اس کی مانی جائے گی جو اکثریت میں ہوگا۔ سو کومل
نے بھی سو ڈیڑھ سو دوستوں کی رائے کو اہم جانا اور گھر والوں کی رائے کو ناک سے مکھی کی طرح اڑا دیا۔
عید میں بھی فیس بکی دوستوں نے کومل کے ہاتھوں کے بنے مزے دار پکوان کھائے اور خوب واہ واہ کی۔ کومل اپنے تمام دوستوں میں ایک بہترین مہمان نواز کے طور پر مشہور و مقبول ہوچکی تھی۔ کومل بھی بے حد خوش تھی۔ ذرا سا کچھ بناتی اور سو ڈیڑھ سو لوگوں تک اس کا بنایا گیا پکوان پہنچ جاتا۔ بھئی فیس بک نے تو کھانوں میں بھی برکت ڈال دی تھی۔ کومل کو محسوس ہوا وہ دن بدن سگھڑ اور مہمان نواز ہوتی جا رہی ہے۔ اپنے اندر در آنے والی اس تبدیلی پر بے حد خوش تھی۔ انجانے میں ہی سہی مگر فیس بک اس کی اچھی تربیت کرنے کا بھی باعث بن رہا ہے۔ اس خیال کا ذکر اس نے اپنے والدہ ماجدہ سے بھی کیا۔
" اگراتنی سگھڑ ہو گئی ہو تو زرا جا کر پورے گھر کی صفائی ستھرائی ہی کر دو۔" والدہ ماجدہ نے بے زاری کے عالم میں اسے دیکھ کر کہا۔
" اوہو امی۔۔۔۔۔! مجھے دیکھ کر تو آپ کو سب کام یاد آ جاتے ہیں۔ کومل نے منہ بنایا۔
"اچھا پھر مہمان نوازی تو آ ہی گئی ہے تمہیں ذرا جا کر بڑے بھیا کو کباب پراٹھا بنا کر دے دو۔ کتنے دن سے پراٹھے کی فرمائش کر رہا ہے۔" والدہ ماجدہ نے ایک اور تیر پھینکا اور کومل کو پڑھائی کا بہانہ بناتے اٹھتے ہی بنی۔
دیر سے ہی سہی اس کو محلے والوں کے تعاون سے ادرا ک تو
ہوا۔ گھر میں، اماں اور آل اولاد کے درمیان ایک میٹنگ بٹھائی گئی۔ فیصلہ کیا گیا کہ جمیل میاں کی پڑھائی لکھائی جو دراصل ساڑھے بائیس ہے اور اس کی آڑ میں بدمعاش دوستوں کی محفل سجتی ہے ۔ تو اس پڑھائی لکھائی کو بند کر کے ملازمت ڈھونڈ نے پر زور دیا جائے۔ جمیل میاں کے گھر آمد پر ابا جی نے انتہائی سختی کے ساتھ فیصلہ صادر کر دیا۔
”اب یوں نہ چلے گا برخوردار ............ پڑھنا لکھنا نہیں ہے تو پھر کام دهندا تو ڈھوڈنا پڑے گا جوان جہاں لڑکا گھر میں مفت کی روٹیاں توڑتا اچھا نہیں لگتا۔" ابا جی نے خوب گرج چمک کے ساتھ فیصلہ سنایا۔ برخوردار نے سر تسلیم خم کیا ۔ اور دھندا ہی ڈھونڈ لیا۔ اور جو دھندہ ڈھونڈا وہ بھی کیا خوب ڈھونڈا۔
فیس بکی دنیا سے جمیل میاں اور ان کے یاروں کی دوستی درینہ اور پرانی تھی۔ بیٹھے بٹھائے ان کو دھندا مل گیا۔ سب سے آسان شکار اسے لڑکیاں لگیں۔ جو ہر گھڑی گھر اور اپنے اردگرد کی لمحہ نہ لمحہ بدلتی صورت حال کی خبرفیسں بک پر نشر کرتی رہتی تھیں۔
جمیل میاں اور اس کے دوستوں نے کئی زنانہ ناموں سے جھوٹے فیس بک اکاونٹ بنائے ۔ اور کئی لڑکیوں کو دوستی کی درخواست بھیج دی۔ جس میں سے اکثریت نے قبول بھی کر لی ۔ جمیل میاں اور ان کے دوست دن رات موبائل پر ان لڑکیوں کے روزمره کے معمول کی تفصیلات پر نظر رکھتے۔ ایک لڑکی نے اپنی کچھ سہیلیوں کو ٹیگ کیا اور آؤٹنگ پر جانے کی بابت دریافت کیا۔ سہیلیوں نے خوب محفل جمائی۔ خوب باتیں ہوئیں۔ آخر میں فیصلہ ہوا کہ کس وقت "اچھا پھر مہمان نوازی تو آ ہی گئی ہے تمہیں ذرا جا کر بڑے بھیا کو کباب پراٹھا بنا کر دے دو۔ کتنے دن سے پراٹھے کی فرمائش کر رہا ہے۔" والدہ ماجدہ نے ایک اور تیر پھینکا اور کومل کو پڑھائی کا بہانہ بناتے اٹھتے ہی بنی۔