پرانے وقتوں کے لوگوں کا کہنا تھا کہ نیکی کر دریا میں ڈال۔" مگر کومل کا انداز ذرا جداگانہ تھا۔ جب سے اس نے فیس بک کا اکاؤنٹ سنبھالا تھاتب سے اس کا کہنا تھا کہ " کچھ بھی کر' فیس بک پر ڈال۔" اس مقولے پر وہ انتہائی سختی سے کاربند تھی ۔ ماموں جی کی شادی تھی ۔ اونچی ایڑی کی نازک سی سلور سینڈل خریدی۔ پیروں میں پھنسائی، ، تصویر بنائی اور فیس بک پر ڈال دی۔ خوب واہ، واہ ہوئی۔ مہندی کی تقریب میں مہندی لگائی۔ گورے گورے ہاتھوں میں سجی سرخ مہندی من کو بھائی ۔ نہ جانے کس بات پر بھلا کیوں شرم آئی ۔ چہرے کو دونوں ہاتھوں سے چھایا۔ تصویر بنوانی اور فیس بک پر ڈال دی۔ خوب ماشاء الله ' ماشاء اللہ ہوئی ۔ اور باتیں کومل کو فیس بکی دنیا کا عادی بناتی جا رہی تھیں۔
موسم ابر الود تھا۔ ہلکی ہلکی پھوار نے بھی برسنا شروع کردیا۔ کومل اپنی سہیلیوں کے ہمراہ کالج کینٹین تک جا پہنچی۔ آلو کے چپس اور ٹھنڈی کوک کی بوتلیں منگوائیں اور وہیں کرسی ٹیبل پر بیٹھ گئیں۔
" ہاۓ کیا موسم ہے۔ چپس کے ساتھ ساتھ اگر گرما گرم پکوڑے بھی ہوجائیں تو کیا ہی بات ہے۔" سدا کی چٹوری فیروزه نے حسین موسم کو اپنی چنی منی آنکھوں میں سموتے ہوئے ایک آہ بھری۔
" خیال تو بڑا اچھا ہے۔ مگر میری پاکٹ اجازت نہیں دیتی۔" ارم نے بے چارگی سے کہا۔
" ارے بھئی ایسا کرتے ہیں کہ سب اپنی اپنی پاکٹ منی ملا کرآج اس حسین موسم کی خوشی میں پارٹی کرتے ہیں ۔" کومل نے مشورہ دیا۔
" آئیڈیا تو بہت اچھا ہے۔ چلو زرا سب بتاو کس کس کے پاس کتنے پیسے ہیں۔" ساره نے حمایت کے ساتھ ساتھ عملی مظاہرہ بھی شروع کردیا۔ سب نے اپنی اپنی جیبیں جھاڑیں۔ اتنے پیسے تو بن ہی گئے ہیں کہ پکوڑوں اور چھولے کی ایک ایک پلیٹ میز پر سب کے سامنے سج گئیں اس سے قبل کہ وہ سب ان چٹ پٹے اہتمام پر ٹوٹتیں۔ کومل نے سب کو یاد دلایا۔
" ارے ارے۔۔۔۔۔ سیلفی رہ گئی۔۔۔۔! چاروں نے بمشکل منہ میں آتے پانی کو روکا اور جھٹ سے سیلفی پوز بنا ڈالا۔ تصویر کھینچی اور چند ہی ساعتوں میں دس لوگوں کے ہمراہ فیس بک پر اپلوڈ بھی ہو گئی۔ اور اس چٹ پٹے اہتمام کو دیکھ کر کتنوں کے منہ میں پانی بھر ایا۔ بہت سوں نے تو اس محفل میں شامل نہ کرنے کی شکایت بھی کر ڈالی۔ اور کچھ بے چاروں نے تو تصویر دیکھ کر ہی چٹ پٹی دعوت کا لطف اٹھا لیا۔ فیس بک کی دنیا صرف نرالی ہی نہیں بلکہ بے حد منفرد بھی تھی۔ کم سے کم کومل کوتو یہی محسوس ہوتا تھا۔
اگر جمیل الدین سے پوچھا جائے کہ وہ کون سا کام ہے جسے کرتے ہوئے انہیں موت آتی ہے تو جواب ہو گا " بڑے بھائیوں کا کام۔"
جمیل الدین کچھ الگ قسم کے نوجوان تھے۔ زمانہ طالب علمی میں پڑھنے لکھنے میں دل نہ لگتا تھا تو فقط آوارہ دوستوں کے ساتھ آوارہ گردیوں میں رات گئے تک دوستوں کی بیٹھک چلتی ۔ وہ برخاست ہوتی تو موبائل پر نیندیں حرام ہوتیں۔ فجر کے وقت آنکھ لگتی تو آدھا دن گزرجانے کے بعد بے داری ہوتی۔
احسن الدین صاحب جب فجر کی نماز کے لیے جاگتے سب سے پہلے برخوردار جمیل پرلعن طعن بھیجتے پھر نماز کو جاتے۔ نماز کی ادائیگی کے بعد ایک بار پھر نہایت عاجزی کے ساتھ برخوردار کی شان میں قصیدے پڑھتے اور یہی قصیدے میاں جمیل کے لیے لوری کام کر جاتے۔ باپ کی ڈانٹ پھٹکار سنتے سنتے میاں جمیل کی آنکھ لگ جاتی اور ہاتھوں میں تھرکتا موبائل لڑھک کر
زمین بوس ہو جاتا۔ یہی روز کا معمول تھا۔