SIZE
4 / 7

" ثمینہ پتر! پیالے کو یوں کناروں تک نہیں بھرتے ۔ تمہیں زیادہ ہی کھانا ہے تو پھر لے لینا۔"

دہی سے لبالب بھرے پیالے میں دیسی چینی ملاتے ہوئے جب ثمینہ سے کچھ دہی فرش پر گر گیا تو اس کی ساس نے بہت نرمی سے سمجھایا۔

" کیسی چالاک عورت ہے' اسے تو میرا کھانا پینا بھی برا لگتا ہے۔ دفعہ دور' جا کھاتی نہیں تیرا دہی۔" منہ ہی منہ میں بڑبڑاتے ہوئے ثمینہ نے مارے غصے کے وہ پیالہ ہی زمین پر گرا دیا ۔ ٹھک کر کے پیالا ٹوٹا اور سارا دہی مٹی کے فرش پر بہہ گیا۔

" ہائے میرے اللہ ! یہ کیا ہو گیا۔" اس کی ساس جھٹ سے آگے بڑھیں اور اپنے ہاتھوں سے وہ مٹی والا دہی دوسرے برتن میں ڈالنے لگیں۔

” نہ میری دھی نہ' یہ دودھ دہی تو رب کا نور ہوتا ہے' اسے زمین پر نہ ڈولو (گراؤ ) اللہ ناراض ہوتا ہے۔" وہ ساتھ ہی اسے سمجھا بھی رہی تھیں۔

" میں نے کون سا جان بوجھ کر گرایا ہے' بس خود ہی پتا نہیں کیسے۔۔۔۔" ثمینہ نے سفید جھوٹ بولا۔

" ہاں بیٹی! تو کیوں ڈولےگی بھلا' میں یہ کہہ۔۔۔۔"

" اچھا اماں! ذرا حسن کو دیکھوں' کہیں اٹھ نہ گیا ہو۔ ان کی بات کاٹ کروہ باورچی خانے سے باہر آ گئی ۔

" ایسا ہے تو پھر ٹھیک ہے اماں! میں ابھی جا کر کہہ اتا ہوں' آپ نا یہ بوریاں گن کر باہر ڈیوڑھی میں رکھوا دیں۔"

"ہاں جائیں مگر یاد رہے' انہیں ایک ایک بوری دینی ہے'ہر سال کی طرح۔" ثمینہ کے بے لچک انداز نے ماں بیٹا دونوں کو حیران کر دیا تھا۔

" نہیں دھی! تجھے تو پتا ہے ناں ' خیر سے اس بار ہماری کنک(گندم) پچھلے سال سے دوگنی ہوئی ہے۔ پھر ہم ان غریبوں کو جو ہر سال ایک بوری دیتے ہیں' اس دفعہ دو بوریاں کیوں نہ دیں۔" ان کا لہجہ نرم ہی تھا۔

" پرماں جی ! اس سال گندم کا بھاؤ بھی تو بڑھا ہے ناں ۔ یہی فالتو کی ایک ایک بوری جو انہیں دینی ہے' منڈی میں بیچ کر کیوں نہ ہم اپنی جیب میں پیسے ڈالیں۔"

ثمینہ بڑی سمجھ دار بن کر انہیں مشورہ دینے لگی۔

اس سے پہلے کہ انور اس کے جواب میں ثمینہ کو کوئی تلخ بات کہتا' ا ماں نے سر کے اشارے سے اسے باہر جانے کا کہا۔

" ادھر آ' میرے پاس' تجھے میں سمجھاتی ہوں بیٹا!" انہوں نے ثمینہ کا ہاتھ پکڑ کر اپنے پاس ہی چارپائی پر بٹھا لیا۔

” قرآن شریف میں اللہ پاک نے کہا ہے کہ ہمارے مالوں میں' زمینوں میں حصہ ہوتا ہے' غریبوں' یتیموں اور ماڑے (کمزور) لوگوں کا' تو یہ حصہ ہمیں ہر صورت ان کو پہنچانا ہی ہو تا ہے۔"

وہ کسی بڑے مولوی صاحب کی طرح اپنی بہو کو سمجھانے لگیں۔

" مگر اماں! زمینیں ہماری' اس پر ساری محنت' خون پسینہ ایک کر کے فصلیں اگائے آپ کا بیٹا' تو پهرمالک تو وہی ہے ناں آپ کا بیٹا۔" ثمینہ کوبڑا دھچکا لگا تھا۔

" نہیں پتر! اصل مالک تو صرف اور صرف الله ہے۔ ہم تو امانت دار ہیں اس کے' اس کی طرف سے اس کے بندوں تک ان کا حق پہنچانے والے ۔ ہمیں تو وہی کرنا ہے جو ہمارے رب اور اس کے رسولﷺ نے فرما دیا بس۔ اب تو جا اور جا کے میٹھی لسی بنا چاٹی بھر کے ۔ انور نے کہہ دیا ہو گا جا کر۔ وہ لوگ آ تے ہی ہوں گے بوریاں اٹھانے۔ میں ذرا عصر کی نماز پڑھ لوں۔"