اپنی ماں کی ان بہت ساری ہدایات کو اپنے سچے دل سے کیے گئے وعدے کی لڑی میں پروئے' ثمینہ جب سسرال پہنچی تو اسے یقین تھا کہ بہت جلد یہ" تمیزدار بہو" کے خطاب سے سرفراز ہو جاۓ گی مگر سسرال تو وہ پہیلی ہے' جسے کوئی بھی آج تک بوجھ نہیں پایا۔ ریشم کی ایسی گتھی' جو کسی سے نہ سلجھ سکے ناں۔
بڑا سا گھر' ہر وقت کا آیا گیا' خوب کھلا کھانا پکانا اور اس کی ساس اکیلی جان۔ یہ اور بات کہ کبھی کبھار کوئی عورت بھی مدد کے لئے بلوا لی جاتی ورنہ سارا کام اس کی ساس بڑی مہارت اور سلیقے سے خود ہی یوں نبٹا دیتیں کہ ثمینہ خود حیران رہ جاتی۔
شروع شروع میں اس نے بھی آگے آگے ہو کران کا ہاتھ بٹانا چاہا مگر " نئی نویلی دلہن اور ہاتھوں کی مہندی کے رنگ۔" جیسے لفظوں سے بہلا دی گئی اور پھر اوپر تلے کے بچوں نے بھی اسے کچھ مصروف کردیا۔
بظاہر تو ثمینہ ایک مثالی زندگی گزار رہی تھی مگر کب تک بھلا'۔ بنت آدم تھی' سو اپنی ہی جنت کے پھلوں سے کچھ اوب سی گئی تھی۔ شوہر اسے پیارتوکرتا تھا مگر اپنی ماں کا پکا فرماں بردار' کوئی ملنے جلنے بھی گھر میں آتا تو سب سے پہلے ثمینہ کی ساس کا ہی پوچھا جاتا۔ گھر کا ہر کام' ہر فیصلہ انہی کی مرضی سے ہوتا۔ وہ اگر ڈھیٹ بن کر اپنی رائے دینے کی کوشش بھی کرتی تو کبھی نہیں مانی گئی بلکہ الٹا مذاق ہی اڑایا گیا۔ کم سے کم ثمینہ کو تو ایسا ہی محسوس ہوتا تھا۔
ثمینہ کی ساس کا ہاتھ بہت کھلا تھا۔ اچھی خاصی چیز بڑے آرام سے اٹھا کر کسی کو دے دی تھیں اور ثمینہ کا جی خاک ہو جاتا۔
جس دن ثمینہ نے حسن کا چھلا نہایا تو اس کی ساس نے اپنی سونے کی انگوٹھی اتار کر دائی رضیہ کو دے ڈالی۔
" تو نے مجھے سب سے پہلے میرے پوتے کی خبردی تھی۔ اللہ تیری خیر کرے۔" انہوں نے انگوھی اسے پہناتے ہوئے کہا تو وہ خوشی اور تشکر سے ان کے ہاتھ چومنے لگی۔
جبکہ ثمینہ تو حیران رہ گئی۔ کیا ضرورت تھی اس دو ٹکے کی عورت کو اتنا بڑا تحفہ دینے کی۔ تنہائی ملتے ہی اس نے شوہر کے سامنے دل کی کھولن نکالی تھی۔
" اوجھلیے! سب سے بڑا تحفہ تو یہ ہمارا بیٹا ہے جو اللہ پاک نے ہمیں دیا ہے۔ اس کے سامنے بھلا سونے کی انگوٹھی کی کیا وقعت۔"
انور نے حسن کو گود میں لے کر بڑے آرام سے کہا تھا۔
" ہونہہ۔۔۔۔۔ بڑا آیا وقعت بتانے والا۔ اتنی پسند تھی مجھے' کئی بار سوچا اماں سے خود مانگ لوں اپنے لیے۔"
" دل کی بات کہہ ڈالی آخر۔ تم زنانیاں بھی ناں بڑی لالچی ہوتی ہو۔ پورے آٹھ تولے کا سیٹ بنوا کر دیا ہے تجھے اماں نے حسن کے پیدا ہونے پر اور تو اس چار ماشے کی انگوٹھی کے لیے رو رہی ہے۔ سچ کہتے ہیں سیانے' عورت کی عقل چٹیا کے پیچھے ہوتی ہے۔ وہ منہ بنا کر اٹھ کر چلا گیا تھا۔ مگر ثمینہ کو کون سا پرواہ تھی۔
گائے بھینس گھر میں تھیں۔ دن میں دو بار انور بالٹیاں بھر کر دودھ کی لاتا تھا اور روز صبح اس کی ساس بہت سارا مکھن بناتی تھی۔ نرم نرم تازہ مکھن کا پیڑا۔ اس کا ذائقہ اور خوشبو۔ اپنی ماں کے گھر میں صرف پاؤ بھر دودھ سے سارا دن گزارنے والی ثمینہ کے لیے یہ دودھ مکھن کوئی آسمانی نعمت تھیں جیسے وہ تو اس کا پیٹ جلدی بھر جاتا' ورنہ اس کا مکھن والا برتن آخر تک چاٹ جانے کو دل کرتا تھا۔