SIZE
5 / 7

اپنے تئیں تو دلہن کو بہترین انداز میں سمجھا کر انہوں نے اپنا فرض نبھا دیا تھا مگر اس نے سمجھا بھی کہ نہیں' اس پر انہوں نے دھیان نہیں دیا۔

چھوٹے چھوٹے، ہلکے سبز رنگ کے ملائم ٹنڈے اور اتنے ہی چھوٹے مگر جامنی رنگ کے لشکارے مارتے بینگن ٹوکری بھر کر اس وقت ثمینہ کے سامنے رکھے تھے۔

" واہ جی واہ! آج تو موجیں ہی ہو گئیں۔ بھرے ہوئے ٹینڈے

بناؤں یا بینگن کی بھجیا' اتنی تازه سبزی ہے' گوشت سے بڑھ کر ذائقہ بنے گا۔" اس کے منہ میں سوچ کر ہی پانی بھر آیا۔ تبھی ساتھ والے گھر سے جیراں تائی آ گئیں۔

" لگتا ہے آج پھر کھیتوں سے سبزی آئی ہے۔ " انہوں نے ثمینہ کے آگے دھری ٹوکری دیکھ کر کہا۔

”ہاں تائی! دیکھو زرا کتنے خوب صورت بینگن ہیں۔" وہ مگن سی بولی۔

" ہاں پتر! ماشاءاللہ' اللہ برکت دے۔" تائی نے فورا کہا۔ ثمینہ کی گردن کچھ اور بھی تن گئی۔

" مائی جنتے نہیں آئی ابھی تک کڑیے!" انہوں نے ثمینہ کی ساس کا پوچھا۔

" نہیں تائی! ابھی دو چار دن اور لگیں گے۔"

" ٹھیک ہے دھی! آخر تو جنتے کی سگی ماسی کا بیٹا تھا مرنے والا۔ کچھ دن تو وہاں رہ کر ہی آۓ گی۔"

تائی اٹھتے ہوئے بولیں۔

" ہاں جی!" بینگنوں کی ڈنڈیاں اتارتے ہوۓ ثمینہ بے دھیانی سے بولی۔

" میں بھی جا کر دیکھوں ذرا' سبزی والا آ گیا ہو گا۔ دوپہر کے کھانے کی تیاری کروں۔"

تائی نے بڑے غور سے سبزی کی ٹوکری کو دیکھتے ہوئے کہا اور چل پڑیں۔

" ہاں ہاں اب جان بھی چھوڑ۔ اس سبزی میں سے کچھ نہیں ملے گا تمہیں۔ کب سے نظریں جما کر بیٹھی ہے۔ بھوکی ندیدی نہ ہو تو۔" ثمینہ تائی کے جاتے ہی بڑبڑائی تھی۔

تین دن بعد جب اس کی ساس واپس آئیں تو بڑی ساری ٹوکری میں پڑی ساری سبزی خراب ہو چکی تھی۔

" اماں ! میں تو اس دن سبزی پکانے لگی تھی کہ ماجھو کے گھر سے چاولوں کی پرات بھر کے آ گئی۔ سو میں نے سالن ہی نہ بنایا۔"

ان کے پوچھنے پر ثمینہ نے وضاحت کی۔

" اچھا، پھر بھی اتنی ساری تھی ۔ محلے پڑوس میں دے دینی تھی۔ ہمیشہ ایسے ہی تو کرتی ہوں میں۔ اب یہ اتنا سارا رزق ضائع ہی گیا ناں۔ اللہ معاف کرے۔"

وہ کچھ ناراضی سی ہو کر چپ ہو گئیں اور ثمینہ بھی منہ بنا کر ایک طرف بیٹھ گئی۔

یوں تو وہ روزانہ ہی تازہ مکھن نکاتی تھیں مگر جمعرات کے دن وہ جتنا بھی مکھن نکالتیں' اسے فورا گرم کرنے کے لیے چولھے پر رکھ دیتیں اور پھر جو گھی بنتا'

اسے الگ سے ایک چھوٹی سی گڑوی میں ڈال لیتیں اور جب کچھ عرصے بعد یہ گڑوی بھر جاتی تو پھر ایک دن خود ہی خالی بھی ہو جاتی۔ کیسے اور کہاں۔۔۔۔ یہ بات ثمینہ کے لیے راز تھی۔

مگر اسے یہ راز جاننے سے کہیں زیادہ اس بات کا قلق تھا کہ جمعرات کے دن وہ مکھن سے محروم رہ جاتی ہے۔ اس دن گھرمیں کسی کو بھی تازہ مکھن نہیں ملتا تھا یا تو گھی استمال کرو یا پھر کل کا بچا ہوا مکھن ' اور ثمینہ کے لیے دونوں ہی باتیں برداشت سے باہر ہو جاتیں۔

" مجھ سے نہیں کھایا جاتا وہ کل والا' میں تو یہی لوں گی۔"

ایک بار ثمینہ نے بچوں کی طرح ضد باندھ لی تھی۔

" یہ تو میں ہرگز نہیں دوں گی۔ ہفتے کے چھ دن تم اپنی مرضی سے کھاتی ہو ' آج ایک دن نہیں لو گی تو کیا ہو جاۓ گا۔" آج شاید انہیں بھی غصہ آ گیا تھا۔