" بھئی۔۔۔۔۔ ہم سے ہر وقت دوڑ دوڑ کر دروازے نہیں کھولے جاتے۔ "بیگم علی نے ایک دن جھنجھلا کر کہا تھا۔ " آپ لوگ اپنے لیے الگ چابیاں بنوا لیں' اور ہمیں اس زحمت سے بچا لیں۔"
گھر کی چابیوں کا ایک سیٹ عفت کے حوالے بھی کر دیا گیا تھا' مگر اس سے چابیاں سنبھالی کہاں جاتی تھیں۔ نتیجتا ایک مرتبہ چابیاں کھوئیں تو گھر بھر میں ہلچل مچ گئی۔
" اۓ ہئے۔۔۔۔ کہیں گرا ورا تو نہیں دیں۔" بیگم علی نے بوکھلا کر پوچھا۔
"نہیں ' نہیں....امی۔۔۔۔۔" عفت ملی سراسیمہ ہوئی۔ "میں نے پرس میں رکھی تھیں۔"
" پرس سے کہیں گر گئی ہوں گی۔" چھوٹے بھائی مظفر نے اطمینان سے خیال آرائی کی۔
" نہیں۔۔۔۔۔ کیسے گر سکتی ہیں۔۔۔۔؟ عفت علی روہانسی ہوئی۔ " چھلے میں دو چابیاں تھیں۔۔۔۔ گرتیں تو آواز آتی۔۔۔۔۔ مجھے پتا چلتا۔"
آپا! یاد کر لو اچھی طرح۔۔۔۔پرس میں رکھی بھی تھیں؟" دوسرے چھوٹے بھائی اظفر کا لہجہ عفت کو طنزیہ لگا۔ تاہم ضبط کر گئی۔
" بیٹے ایک بار پھر چیک کرلو۔" بیگم علی نے ہدایت کی۔
" امی۔۔۔۔۔ اتنی دیر سے یہی تو کر رہی ہوں۔"عفت علی نے بے بسی سے کہا۔
" تو بھئی! تلاش کرو۔"علی احمد نے حکم صادر کیا۔
" گھر کی چابیاں ہیں کوئی مزاق نہیں ہے۔ "
" جاؤ ' دوسری جگہوں پر بھی دیکھ لو۔" بیگم علی نے ایک بار پھر کہا۔
اور عفت نے ہر ممکنہ جگہ پر تلاش کرنے کی کوشش کر لی۔ مگر چابیاں ملنی تھیں' نہ ملیں۔ وہ تھک ہار کے بیٹھ گئی۔ علی احمد نے اسے طوعا کرہا دوسری چابیوں کا سیٹ بنوا کے دیا۔
نئی چابیاں بنوانے کے کچھ ہی دن بعد دراز کی صفائی کے دوران پرانی چابیوں کا سیٹ بھی برامد ہو گیا۔
" دیکھا! اسی لیے کہہ رہی تھی کہ دوسری جگہوں پر بھی دیکھ لو۔" بیگم علی نے اطمینان کی سانس لے کر کہا۔ " خیر! چلو اچھا ہوا' یہ سیٹ مل گیا۔" چابیاں لینے کے لیے عفت کی جانب ہاتھ بڑھاتے ہوۓ بیگم علی نے کہا۔ " میرے پاس بھی اضافی چابیاں ہونی چاہیں۔"
"عفت نے خوشی خوشی اضافی چابیوں کا سیٹ اپنی امی کو دے دیا ۔ ابھی اس کی خوشی کو زیادہ دن نہیں ہوئے تھے کہ ایک واقعہ منتظر تھا۔ اس دن وہ گھر آئی تو مظفر بھی اس کے پیچھے پیچھے اندر چلا آیا۔
" آپا! یہ کیا ہے؟" کرسٹل کی کی چین میں لٹکتی چمکتی دمکتی دھات کی دو چابیاں اس کی آنکھوں کے سامنے لہراتے ہوئے مظفر نے پوچھا۔
" میری گھر کی چابیوں کا سیٹ ہے۔ “ عفت حیران ہوئی۔ تمهارے پاس کیا کر رہا ہے؟"
" میں بھی آپ سے پوچھنا چاہ رہا تھا کہ یہ سیٹ چابیوں کے سوراخ میں کیا کررہا تھا؟ "
"چابیوں کے سوراخ میں ؟" عفت نے استعجاب سے دہرایا۔
" جی ہاں آپ یہ کی ہول میں لگا کر نکالنا بھول گئی تھیں۔"
" کیا ہوا مظفر ؟" بیگم علی جو اونچی آوازیں سن کر وہیں چلی آئی تھیں' بیٹے کو دیکھتے ہوئے دریافت کیا۔ " اتنی زور زور سے کیوں بول رہے ہو؟"
" امی یہ ذرا آپا کو دیکھیں۔" مظفر نے ماں کو دیکھ کر فورا شکایت کی۔ " چابی کی ہول میں لگا کر چھوڑدی۔"
" اۓ ہاۓ عفت! یہ دن بہ دن تیری یادداشت کو کیا ہوتا جارہا ہے۔" بیگم علی نے اسے لتاڑا۔ ”کبھی چابیاں کھو دیتی ہے۔ کبھی کی ہول میں لگا کر چھوڑ دیتی ہے۔"
" امی! وہ تو شکر ہوا کہ چابی مین گیٹ میں لگا کر نہیں چھوڑی۔" مظفر کہہ رہا تھا۔ " ورنہ سوچیں کیا ہوتا۔"
" ارے! ہونا کیا تھا۔ جس کے ہاتھ بھی لگتی اس کی عید ہو جاتی۔" بیگم علی نے کہا۔ "لو بتاؤ! شہر کے حالات دیکھو۔ چور' ڈاکو' لٹیرے بغیر دعوت کے گھروں میں گھس جاتے ہیں۔ اس صورت میں تو بلاوے پر آمد ہوتی۔"