" میرا خیال ہے ان چابیوں کا سیٹ بھی مجھے اپنے پاس رکھ لینا چاہیے۔"
بیگم علی مظفر کے ہاتھ سے چابیاں لیتے ہوئے کہہ رہی تھیں اور عفت ہونقوں کی طرح سے ان کی شکل تک رہی تھی۔ احتجاج کے لیے اس کو الفاظ نہیں مل رہے تھے۔ ویسے۔ وہ احتجاج کرتے بھی تو کس بنا پر۔۔۔۔؟؟؟ فرد جرم عائد ہونے کے لیے سارے شواہد دن کی طرح روشن تھے۔
اب جبکہ گھر کی چابیاں اس کے پاس نہیں تھیں تو گھر میں داخلے کے لیے اطلاعی گھنٹی بجا کر اسے کافی کافی دیر انتظار کرنا پڑتا تھا کیونکہ جو وقت اس کی آمد کا تھا۔ وہی وقت بیگم علی کی نیند کا تھا۔ یہ سلسلہ مزید طویل ہو تا۔ اگر چھوٹے بھائیوں کی شادی نہ ہو جاتی۔ چھوٹی بھابیوں کے آجانے کے بعد اس کو قدرے آرام ہوا کرتب دوسرے مسائل سراٹھانے لگے۔
عفت اب چالیس سال کی ہو چکی تھی۔ یہ اتفاق تھا کہ وہ اور ثانیہ عابد ایک بار پھر ایک ساتھ ایک ہی جگہ پر کام کررہے تھے۔ "
" عفت! یہ ایک کلائنٹ کی فائل ہے۔" آفس سے نکلنے سے کچھ دیر پہلے ثانیہ نے ایک نیلے رنگ کی فائل عفت کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا۔
" باس کہہ رہے ہیں' تمہیں دے دوں کیونکہ فائلز کا ریکارڈ تو تمہارے پاس ہوتا ہے نا۔"
عفت نے خاموشی سے فائل اس کے ہاتھ سے لے کر فائل کیبنٹ میں رکھ دی' مگر برا ہو' اس کی خراب عادت کا۔ ساتھ ہی لاک لگا کر چابی بھی اپنی دراز میں ڈال دی۔
اگلے دن عفت آفس پہنچی ہی تھی اور ابھی بیگ بھی کندھے سے نہ اتار پائی تھی کہ ثانیہ اس کے سر پر آن موجود ہوئی۔
" عفت! کل جو فائل میں نے تمہارے پاس رکھوائی تھی' باس منگوا رہے ہیں۔"
عفت فرمانبرداری سے فائل کینٹ کی طرف بڑھی۔ ہینڈل پکڑ کر دراز کھینچی تو اسے لاک پایا۔ کی ہول کی جانب نگاہ کی تو دل دھک سے رہ گیا۔ وہاں چابی کا نام و نشان نہیں تھا۔ اسے ایک دم یاد آیا کہ اس نے چابی دراز میں رکھ دی تھی۔
" مگر کس دراز میں۔۔۔۔؟"
" کیا ہوا؟" عفت کو ایک کے بعد دوسری دراز کھنگالتا دیکھ کر ثانیہ نے اچھنبے سے دریافت کیا۔
عفت نے بدستور دراز میں سر اور ہاتھ گھساۓ گھساۓ سکون سے کہا۔
" جیسے ہی چابی ملتی ہے' تمہیں فائل دے دیتی ہوں۔"
" کیا مطلب ہے۔۔۔۔ چابی ملتی ہے؟" ثانیہ کے ماتھے پر بل آ گئے۔ " چابی کہاں گئی؟"
" کہیں نہیں گئی۔۔۔۔" عفت نے مصروف انداز میں بتایا۔ " دراز میں رکھی تھی۔"
" دراز میں رکھنے کی کیا ضرورت تھی' جب چابی فائل کیبنٹ میں لگی رہتی ہے؟" ثانیہ نے تھکے لہجے میں کہا۔
" اب بتاؤ! کلائنٹ آیا بیٹھا ہے۔ باس فائل منگوا رہے ہیں۔۔۔۔۔ کیا کروں۔۔۔۔؟"
" تم پریشان مت ہو ثانیہ!" عفت نے تلاش جاری رکھتے ہوئے کہا ۔ "چابی مل جائے گی۔"
" پریشان مت ہوں؟" ثانیہ نے استہزا سے دہرایا۔ " اچھا مشورہ ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ تمہیں زندگی میں کبھی کوئی کھوئی ہوئی چابی ملی؟"
عفت نے اس بار اسے کوئی جواب نہ دیا۔ خاموشی سے دراز کا سامان چھانتی رہی۔ اسٹیپلر، کامن پنز کا ڈبہ' جیم کلپس ' مارکر اسکاچ ٹیپ' گم اسٹک۔۔۔۔۔
یہ شاید اسٹیشنری کی دراز تھی۔ جو ایک کے بعد ایک چیز اس کے ہاتھ لگتی رہی' مگر صرف چابی کے چھلے میں لگی چابی ہی اس کے ہاتھ نہیں لگ سکی۔
ثانیہ نے بھی اب مختلف درازوں کو کھولنا بند کرنا شروع کردیا تھا۔ ساتھ ہی اس کی بڑبڑاہٹ بھی جاری تھی۔