سب سے مزے دار بات یہ ہوتی کہ نیا لاک لگنے کے کچھ عرصے بعد ہی پرانی چابی بھی بازیاب ہو جاتی مگر ظاہر ہے وہ پھر کسی کام کی نہیں ہوتی۔ گھر والوں کی ناراضی مول لینا پڑتی سو الگ۔
" پچھلی مرتبہ بھی تم سے کہا تھا کہ یہ لاک اور چابی صرف خوبصورتی کے لیے ہے۔" تیسری مرتبہ لاک تبدیل کروانے کے بعد علی احمد صاحب نے خفگی سے کہا تھا۔ " جب الماری کے دروازے مقناطیسی کشش کے تحت بند ہوجاتے ہیں تو۔۔۔۔ آخر تمہیں لاک میں چابی گھمانے کی ضرورت کیا پڑی رہتی ہے۔۔۔۔؟"
" اور چلو۔۔۔۔۔ لاک میں چابی گھما بھی دیتی ہے تو نکالنے کی کیا ضرورت ہے؟ " علی احمد کے جملوں میں مزید کا اضافہ بیگم علی احمد نے کیا تھا۔
" اور۔۔۔۔۔ اگر چابی نکال ہی دیتی ہو تو کم سے کم سنبھال کے تو رکھا کرو۔"علی احمد نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔
" سنبھال کے ہی تو رکھتی ہوں۔" عفت سر جھکا کر اب تک ماں باپ کی جھاڑ پھٹکار سن رہی تھی' منمنائی۔
" سنبھال کے رکھتی ہوتیں تو تیسری بار لاک تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں آتی۔" بیگم علی نے چڑ کر کہا تھا۔
" اور۔۔۔۔ بس۔۔۔۔ اب یہ آخری بار ہے۔" علی احمد نے تنبیہہ کی۔ " اس کے بعد اگر چابی کھوئی تو میں لاک ہی نکلوا دوں گا۔"
اور بد قسمتی سے کچھ ہی دن بعد انہیں اپنی تنبیہہ پر عمل در آمد کرنا پڑا۔ خوب صورت مہاگنی الماری میں لاک کی جگہ اب ایک بد نما سا گول سوراخ رہ گیا تھا۔
اسکول لائف سے نکل کر کالج میں آنے تک چابیاں کھونے کے چند مزید واقعات رونما ہوئے۔
یونیورسٹی میں آنے پر پریکٹیکل کلاس کے لیے گروپ کو ایک لاکر الاٹ ہوا۔ گروپ لیڈر ہونے کی حیثیت سے لاکرکی چابی عفت کے ہاتھ میں آئی۔ یکے بعد دیگرے دو چابیاں کھو جانے کے بعد گروپ کے باقی افراد اس کو چابی دینے سے ہچکچانے لگے اور فیصلہ کیا گیا کہ ہر ممبرباری باری چابی اپنے پاس رکھے گا۔ اور دیگر افراد کی باریوں میں عفت کی باری جان بوجھ کر چھوڑ دی جاتی تھی۔ شروع شروع میں عفت کو محسوس ہوا کہ یہ محض اتفاق ہے' مگر بعد میں اپنے گروپ کے لوگوں کا گریز اسے سمجھ میں آنے لگا تھا۔
ان دنوں کی سلمیٰ مشتاق کے پاس لاکر کی چابی تھی اور چھٹیاں کرنا اس کا محبوب مشغلہ تھا۔
" کیا مصیبت ہے آخر۔۔۔؟" اس تو بالاخر عفت کے صبر کا پیمانہ لبریز ہی ہو گیا۔ " سامان رکھنا یا نکالنا ہوتا ہے اور یہ سلمیٰ پریکٹکل والے دن ہی غائب ہوتی ہیں۔"
" غائب ہی ہوتی ہے نا۔“ ثانیہ' جو اس وقت ثانیہ محبوب تھی' اس پر بھرپور چوٹ کی۔
" کم سے کم یہ اطمینان تو ہے کہ چابی اس کے پاس موجود ہے۔۔۔۔ محفوظ ہے۔۔۔۔۔ تمہاری طرح کھو تو نہیں دیتی۔"
عفت اس چوٹ پر خفت زده سی ہو گئی۔
" اب ایسا بھی کیا چابی کی حفاظت کرنا۔۔۔۔ ! گروپ کی ایک اور فرد نے منہ بنا کر کہا۔ " جب وقت ضرورت لا کر کام نہ آسکے تو اس چیز کا فائدہ کیا ہے؟"
" ہاں ' ہاں بھئی! آئندہ سے سلمیٰ کو چابی نہیں دی جائے گی۔" گروپ کے باقی افراد نے بھی تائید کی۔
یونیورسٹی کا تکلیف دہ دور بھی گزر گیا۔ عملی زندگی میں قدم رکھنے کا مرحلہ آ گیا۔ یہ بھی اتفاق تھا کہ اس نے اور ثانیہ نے ایک ساتھ ایک ہی جگہ سے جاب لائف کا آغاز کیا۔ کچھ میہنے جاب کرنے کے بعد ثانیه نے مسز ثانیہ کے درجے پر فائز ہو کر جاب چھوڑ دی۔ اسے جاب کرتے ہوئے مزید کچھ سال گزرے۔ اس سے چھوٹی بہنوں کی بھی شادیاں ہو گئیں۔ چھوٹے بھائیوں کی بھی جاب لگ گئی۔
گھر میں جو گنتی کے چند افراد رہ گئے تھے ۔ ان کے گھر لوٹنے کے اوقات بھی مختلف تھے۔ لہذا مختلف اوقات میں گھر کے افراد کی آمد پر اطلاعی گھنٹی بجتی ہی رہتی تھی۔