SIZE
4 / 5

" کیسا ہے ؟" لڑکی نے غالبا سالن کے بارے میں استفسار کیا تھا۔

" زبردست! تیرے ہاتھ میں بڑا ذائقہ ہے۔" اس نے لڑکی کے ہاتھ اٹھا کر چوم لیے۔ عورتوں کے حیرت سے منہ کھل گئے۔

میں نے بھی ناگواری محسوس کی۔ اس وقت فوڈ کورٹ میں ہم تینوں یعنی میرے' ان تینوں اور ان دونوں خواتین کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔

" پندرہ دن ہیں تیرے پاس ۔ رہ لے اس عورت کے ساتھ ۔ پندرہ دن کے بعد کا ٹکٹ کٹاؤں گا۔ سال سے چلے چلیں گے لاہور۔ وہاں میرے چاچے کا لڑکا ہے۔ اسے بتا دیا ہے سب کچھ ۔ وہ انتظام رکھے گا ساری چیزوں کا بس ایک بار یہاں سے نکل۔۔۔۔"

وہ ابھی اور کچھ کہنا چاہتا تھا کہ شلوار قمیض میں ملبوس شخص اچھلا غالبا اس کی جیب میں پڑا موبائل گنگنایا تھا۔

" تیری میری' میری تیری پریم کہانی ہے مشکل۔"

" مر گئے رشید۔۔۔۔ اس کی ماں کا فون ہے۔" وہ گھبرا کر بولا۔

" سن تو سہی' کیا کہہ رہی ہے؟ " وہ ناگواری سے بولا۔ اس نے کال ریسیو کی۔

" ہاں' ہاں اچھا فکر نہ کر۔ آتے ہیں ۔" اس نے فون رکھا اور بولا۔

" فورا جانا ہو گا۔ اس کے سسرال والے آئے بیٹھے ہیں ناپ شاپ لینے۔" وہ بھی اپنی کوک ختم کر کے بولا۔

" اٹھ جا تو بھی۔" لڑکی تو پہلے ہی کھڑی ہوگئی تھی۔

" اچھا! تو ابھی تو یہ سامان اپنے ساتھ لے جا۔" وہ لڑکی رشید نامی آدمی سے بولی۔

" ظلم ہے ۔۔۔۔۔ یہ سامان تیرے لیے اتنے پیار سے خریدا تھا۔" وہ متاسف لہجے میں بولا۔

" غم نہ کر شاباش! جہاں اتنا صبر کیا ہے وہاں چند دن اور سہی ' پھراب تو پندردن کی ہی بات ہے۔" شلوار قمیض والے نے گویا اسے دلاسا دیا۔ وہ جلدی سے بل دے کر کے اٹھے اور فوڈ کورٹ سے نکلتے چلے گئے۔

"توبہ توبہ' قیامت کی ساری نشانیاں نظر آرہی ہیں حرافہ کیسے دیدہ دلیری سے بیٹھی بڈھے کے ساتھ بھاگنے کا پروگرام بنا رہی تھی۔" ان کے جانے کے بعد ان میں سے کونے والی نے کلے پیٹے۔

" تو اور کیا۔۔۔۔ اور لکھ لو میری بات۔ ٹھیک آدمی نہیں تھا جو اسے لیے پھر رہا تھا۔ کیا پتا بروکر ہو؟"دوسری والی نے لب کشائی کی۔

" ہاں تو اور کیا۔۔۔۔۔ دیکھا نہیں تھا کیسا میسنے پن سے بیٹھا ان دونوں کم بختوں کو گھل مل کے باتیں کرنے کا موقع فراہم کر رہا تھا۔"

" دیدوں کا پانی مرگیا ہے۔ کم بخت کیسے بن بن کے بول رہی تھی۔ زرا حيا نہیں ہے۔"

" جی میڈم جی۔۔۔۔۔ سئی کہہ رہی ہیں جی ۔ مجھے بھی لگ رہے تھے وہ دو نمبر۔" ان کی ٹیبل صاف کرتے ویٹر نے کہنا ضروری سمجھا۔ اب ان دونوں خواتین نے میری طرف یوں دیکھا گویا میں بھی اس " ذکر خیر" میں اپنا حصہ ڈالوں گی مگر میں کیا کہتی ۔۔۔۔۔ سب اپنے اعمال کے خود جوابدہ ہیں۔

میں نے ٹھنڈی سانس لی اور بل دے کر اٹھ کھڑی ہوئی۔

معا میری نظر اس سوٹ کے شاپر پر پڑی جسے وہ لڑکی دیکھ رہی تھی اور جو یقینا غلطی سے یہیں رہ گیا تھا۔

ویسے تو مجھے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے تھا مگر ایسا ہے کہ میرے اندر

خدمت خلق کے جراثیم بھی بدرجہ اتم موجود ہیں۔ سو جلدی سے شاپر اٹھایا اور گویا بھاگتی ہوئی میں فوڈ کورٹ سے باہر آئی۔ ادھر ادھر تلاش کیا مگر ناکامی۔۔۔۔۔ تھوڑی اور آگے بڑھی ' مین روڈ پروہ ٹیکسی روکتے ہوۓ دکھائی دیے۔۔۔۔ میں تقریبا دوڑتی ہوئی ان تک پہنچی۔

لڑکی اور شلوار قمیض والا ٹیکسی میں بیٹھ چکے تھے اور وہ کھڑکی میں جھکا کھڑا تھا۔ ایک لمحے کے لیے مجھے نفرت سی محسوس ہوئی۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو معاشرے میں بے راہ روی کا باعث بن رہے ہیں مگر میرے پاس امانت تھی سو مجھے اسے مخاطب کرنا ہی تھا۔ میں ان کے قریب آئی۔ لڑکی رو رہی تھی ہچکیوں کے ساتھ۔ ۔