" کچھ کرو جلدی۔ ماں کو تمہاری طرف سے دھڑکا ہے ایسا نہ ہو وہ کل ہی میرا نکاح اپنے شوہر کے عیاش بھتیجے سے کر دے۔ اس عورت کو تو دولت کے آگے کچھ دکھائی نہیں دے رہا' مجھے تمہارا ہی سہارا ہے۔"
" غم نہ کر رانی۔۔۔۔۔ کچھ نہیں کر سکے گی وہ' ایسا کرتے ہیں میں پرسوں ہی تجھے لے چلتا ہوں یہاں سے۔ ابھی گھر جا' کل اپنا سامان سمیٹ۔ میں کل رات کے ٹکٹ کٹانے کی کوشش کرتا ہوں۔ جا رانی! فکر نہ کر۔ میں غریب سہی مگر اتنا بے بس نہیں ہوں کہ تیرے لیے کچھ نہ کر سکوں۔ بس اب مت رو۔ چپ کر جا' نہیں تو تیری ماں کو پتا چل جاۓ گا۔ جا گھر جا۔"
وہ آدمی گلو گیر لہجے میں اسے دم دلاسے دے دلا کر ٹیکسی کو رخصت کر کے آگے بڑھ ہی رہا تھا کہ میں یک لخت ہوش میں آئی اور جھجھکتے ہوئے اسے پکارا۔
" ایکسکیوزمی بھائی صاحب! ذرا سنیے۔"
" مجھ سے کچھ کہا آپ نے؟" وہ مڑ کر تحیر آمیز لہجے میں بولا۔
" جی' جی۔ دیتی۔ یہ آپ کا شاپر وہاں رہ گیا تھا۔ " میں نے جلدی
سے ہاتھ میں موجود اکلوتا شاپر اس کی طرف بڑھایا تھا۔
میں نے اپنا سامان دوسرے ہاتھ میں تھام رکھا تھا۔
" ارے یہ کہاں رہ گیا تھا۔" اس آدمی نے گویا جھپٹ کر مجھ سے شاپر لیا تھا۔
" جہاں آپ کھانا ۔ یہ وہاں رہ گیا تھا۔ نا چاہتے ہوۓ بھی میرا لجہ تلخ ہو گیا تھا۔
" بڑی مہربانی جی ! آپ کا بہت بہت شکریہ۔ سوٹ کھو جاتا تو بڑا ہی دکھ ہوتا جی مجھے۔ پورے پانچ ہزار پونے دوسو کا سوٹ ہے۔ مگر آنکھوں میں کھبا پڑ رہا تھا۔ اس لیے خرید ڈالا۔ اپنی رانی پر یہ رنگ کتنا سجے گا اس کے آگے اس سوٹ کی قیمت کچھ بھی نہیں۔ ارے میں بھی سالا پاگل ہوں۔ آپ کو کیا پتا رانی کون ہے۔"
وہ اپنے سر پر ہاتھ مار کرہنسا۔ میرے جی میں آئی کہ اسے خوب لتاڑوں' کیسے ہنس ہنس کر اپنی محبوبہ کا ذکر کر رہا تھا۔
" رانی' میری رانی بیٹی ہے میڈم جی۔۔۔۔ اپنے چاچے کے لڑکے سے اس کی شادی کروا رہا ہوں نا۔ وہاں لاہور میں ہوتا ہے وہ ۔ وہاں شوگر کی مل میں بڑی اچھی تنخواہ پر کام کرتا ہے جی۔ اچھا جی اجازت۔ میری بس آ گئی اور ایک بار پھر آپ کی مہربانی۔ پانچ ہزار کی چپت لگ جانی تھی نہیں تو۔ وہ اپنی ہی کسی کیفیت کے زیر اثر خوشی خوشی اور سرشاری سے بھرپور لہجے میں کہ کرچلتا بنا۔
میں وہیں کھڑی تھی۔ اس سے کچھ اور کہہ ہی نہ سکی اور ویسے بھی میرے پاس کہنے کے لیے تھا ہی کیا۔ اس لیے ایک ٹھنڈی سانس بھر کر اپنی گاڑی کی تلاش میں پارکنگ ایریا کی جانب چل دی۔