" وہ سوٹ دکھاؤ جو ابھی ہم نے لیا ہے۔" لڑکی بولی۔ سامنے بیٹھے آدمی نے ایک شاپر میں سے جھلملاتا ملٹی شیڈ کا ایک سوٹ نکالا ۔ لڑکی اسے اپنے اوپر رکھ رکھ کر دیکھنے گی۔
" قربان جاؤں، بہت پیاری لگے گی تو اس میں۔" پینٹ شرٹ والا اس پر جھکا کہہ رہا تھا۔
" چھوڑو جی ، مجھے تو وہ جامنی والا ہی بھایا تھا پر تم نے یہ لے دیا۔" وہ نخرے سے بولی۔ شلوار قمیض والا مسلسل پیلے دانت نکالے بیٹھا تھا۔
” چاند! وہ بھی لے دوں گا' ابھی تو دو دفعہ کا پھیرا اور باقی ہے۔ ابھی کہاں تیری خریداری مکمل ہوئی ہے۔"
وہ بڑے پیار سے بولا اور پیار سے اس کا کندھا تھپکا۔ لڑکی نے ہاتھ نہیں چھڑایا۔ دونوں بھاری بھرکم خواتین کی چنی منی آنکھیں حیرت سے گویا پھٹ ہی گئی تھیں ان کو دیکھ کر۔
" نقاب تواتارو۔“ وہ بولا۔
" نہیں بھئی' اگر جو اماں کا کوئی جاسوس ہوا تو؟" وہ سہمے ہوئے لہجے میں بولی۔
" ہر وقت تیرے سر پہ تیری ماں کا ہوا سوار رہتا ہے ۔ اتنا ہی ڈرتی ہے اس سے تو مت آیا کر میرے پاس۔ " وہ غصے سے نتھنے پھلا کر بولا۔
" ڈرتی میں اس سے نہیں ' اس کے خصم سے ہوں۔۔۔۔ شکایت لگا کر مجھے گھر میں بند کرا دے گی۔" وہ روہانسی ہو کر بولی تو وہ یک تخت نرم پڑ گیا۔
" تجھ پر کیوں اتنی نظر رکھتی ہے وہ عورت۔ اپنی باری میں تو طلاق لے کر اپنے یار کا گھر بسانے چل دی۔ تب ا سے کوئی خیال نہیں آیا۔"
" اسے میرا نہیں' تیرا خیال ہے۔ "
" ہاں' یہ ٹھیک کہہ رہی ہے۔ " سامنے بیٹھے شخص اپنے پیلے دانت نکال کر کے کہا۔ " بڑا گھبراتی اس بات سے کہ کہیں یہ تجھ سے نہ مل جاۓ اور پھر اس کا اپنے خصم کےبھتیجے سے اس کا نکاح کروانے کا جو ارادہ ہے نا' وہ تیری وجہ سے ہی تو خاک میں مل سکتا ہے۔" وہ مزے لے لے کر بولا۔
میں ابھی تک ان میں کھوئی ہوئی تھی۔ نجانے کیا قصہ تھا یہ۔۔۔۔۔
" اور مین نے بھی قسم کھائی ہے' اس کا منصوبہ خاک میں نہ ملایا تو میرا نام بھی رشید علی نہیں۔" وہ بولا۔
اتنے میں ان کا آرڈر آ گیا۔ لڑکی نے اپنے پرانے سے ہینڈ بیگ سے کوئی برتن نما چیز نکالی اور خالی پلیٹ پر اوندھا دی۔ لڑکی تکہ کھانے لگی۔ کھاتے وقت بھی اس نے نقاب نہیں اتارا تھا بلکہ ہاتھ نقاب کے اندرلے جا کر کھا رہی تھی۔ وہ دونوں عورتیں اب بھی انہیں دیکھ کر طرح طرح کے منہ بنا رہی تھیں۔ معنی خیز اشارے' آنکھوں کی حرکت۔۔۔۔۔ مجھے بھی حقیقتا انہیں دیکھ کر کچھ عجیب سا ہی احساس ہو رہا تھا۔