SIZE
2 / 5

مگر ان کے پاس کافی سارے کا شاپنگ بیگز تھے جو کہ اس آدمی نے اپنے ساتھ ہی رکھ لیے تھے۔ مجھے قدرے حیرت ہوئی۔ ان کے حلیے ارد گرد کے ماحول سے قطعی میل نہ کھاتے تھے کہ اگر اس شاپنگ مال کی بات کی جاۓ تو اس کا شمار شہر کراچی کے اچھے بڑے اور مہنگے شاپنگ سینٹرز میں ہوتا تھا اور ظاہر ہے ایسی جگہ پر عموما اس حلیے کے لوگ شاپنگ نہیں کیا کرتے۔

" بتا کیا کھاۓ گی؟" لڑکی کے ساتھ بیٹھے شخص نے پوچھا۔

" اوں۔۔۔۔ ہوں' ایسی جلدی بھی کیا ہے' پہلے بات تو کرو۔" وہ ٹھنکی۔

" نہیں! پہلے بتا دے۔ یہ لوگ بنانے میں کافی دیر لگاتے ہیں، اپنے علاقے جیسا حساب نہیں ہے جہاں سب کچھ پہلے سے تیار مل جاتا ہے۔"

اس نے کہا ۔ گو کہ وہ اپنے لحاظ سے دھیمی آواز میں ہی بات کر رہے تھے لیکن میری ٹیبل چونکہ ان سے قریب تھی اور کچھ یہاں کا ماھول بھی خاصا پُر سکون سا تھا اسی لیے ان کی آواز گونج رہی تھی۔

" تکہ مل جاۓ گا؟"

" ہاں۔۔۔۔"

" تو پھر منگوا لو۔"

" اچھا اور میں کیا کھاؤں؟" اس آدمی نے شرارت سے پوچھا۔

" تمہارے لیے تومیں لائی ہوں کڑھائی پکا کر۔"

اس نے فخریہ بتایا۔

بہرحال انہوں نے آرڈر دیا۔

میں بڑے غور سے ان تینوں کو دیکھ رہی تھی۔ سچی بات ہے کہ نجانے کیوں ان کے انداز و اطوار مجھے مشکوک سے ہی لگے تھے۔

لڑکی۔۔۔۔۔ جس نے ابھی تک چہرے سے نقاب نہیں ہٹایا تھا۔ آواز سے کافی چھوٹی بلکہ نوعمرہی لگ رہی تھی۔

" میم اور کچھ۔ ۔۔۔۔" میرا آرڈر ٹیبل پر سجاتے ویٹر نے پوچھا۔

" نو تھینکس۔۔۔۔۔" میری نظریں اب بھی وہیں تھیں۔

" گھر سے کیا بول کر لایا ہے تو۔" پینٹ شرٹ والے نے شلوار قمیض والے سے استفسار کیا۔ وہ جوابا دائیں آنکھ دبا کر ہنسا۔

" اپنے ساتھ لایا ہوں اور کیا کہتا۔"

اس کی ماں نے اعتراض نہیں کیا؟"

" کرے بھی کیسے مجھ پر اعتبار کرتی ہے۔" وہ ہنسا' اس بار لڑکی نے بھی اس کا ساتھ دیا۔

اتنے میں ان کے سیدھے ہاتھ کی ٹیبل پر دو بھاری بھرکم خواتین شاپنگ بیگز سے لدی پھندی آ کر ڈھیر ہو گئیں۔ ان کی سانسیں اتھل پتھل تھیں۔ ویٹر ان کے پاس دوڑا چلا آیا ہے۔

”دولیمونیڈ لاؤ فورا۔ آرڈر بعد میں دیں گے۔" ان میں سے ایک نے کہا۔

ویٹر تعمیل کو دوڑگیا۔