اماں نے پوچھا " بیٹی کیا پڑھ رہی ہو۔" اس نے حدیثوں کے مفہوم نکالے اور سنا دیئے۔ اماں گرویده ہو گئیں۔ ایک بار کھانے کی ترکیب پڑھ کر ایسی لذیذ ڈش بنائی' ابا' اماں' بھائی انگلیاں چاٹتے رہ گئے۔ اکبر کو بھجوائی وہاں بھی بہت تعریف ہوئی ۔ بھابھی کو جھائیاں دور کرنے کا نسخہ اتار کر دیا۔ وہ خوش ہو گئیں۔ سوچ سمجھ کر چلنے کے وہ طریقے جو اماں شرم لحاظ کے مارے کان میں پڑنے بھی نہ دیتی تھیں وہ جویریہ کی شخصیت میں انہیں پرچوں کی بدولت جھلکنے لگے۔ وقت گزرتا گیا۔ ہمت کر کے پہلی بار ادارے کی تعریف میں خط لکھا بشری رحمن پر رائے بھیجی ۔ فریدہ کے لیے اس کا طرز تحریر حیران کن تھا اور ان ہی کا مشورہ تھا۔
” بی بی! ایسے زہین بہت کم ہوتے ہیں جو مختصرسے پیرائے میں مکمل خیالات کا اظہار کرسکیں، آپ کوشش ضرور کیجے گا ' ہمیں آپ کی تحریر کا انتظار ہو گا۔" ان لفظوں نے اسے جھنجوڑا اور احساسات لفظوں کی شال اوڑھ کر کہانی کی صورت لپٹتے چلے گئے۔ ہاں اس کے لیے ایک مسئلہ ضرور تھا اس پلندے کو ارسال کرنا۔ گھر سے مدرسہ' مدرسے سے گھر' زیادہ سے زیادہ اکبر سے ڈھکی چھپی ملا قات۔ اس سے ذکر نئے رشتے کے لحاظ میں نہ کیا۔ ہادیہ مشورہ دیتی۔
" باجی سرخ ڈبے میں ڈال دیتے ہیں۔ خط بھی تو پہنچ جاتے ہیں' یہ بھی پہنچ جائے گا۔"
" نہیں گڑیا! سرخ ڈبے کی درز تنگ ہوتی ہے' یہ بنڈل اس میں پھنس جائے گا۔"
" پھر باجی کیا کریں'اب کراچی جا کر کون دے کر آئے۔ یہاں آ کر دونوں کی سٹی گم ہو جاتی تھی۔ حالانکہ اچھا بڑا شہر تھا۔ ڈاک خانہ بھی موجود تھا مگر جگہ معلوم نہ تھی۔ ابا' بھائی پوچھنے پر جان نکال لیتے' اکبر محبت کا دعوے دار ضرور تھا۔ مگر من موجی تھا رحیم (ڈاکیا) کا مشورہ ہادیہ کا تھا۔
” میں نے خود دیکھا ہے، رحیم چاچا کا تھیلا خاصا بڑا ہے وہ اس میں بھی تو لے جا سکتے ہیں۔"
" بات تو تمہاری دل کو لگی ہے۔" جویریہ نے اس کی کف کے بٹن بند کیے اگلے بال سمیٹ کر کان کے پیچھے اڑستے ہوئے سمجھایا۔
" ایسا کرنا تم احتیاط سے جانا اور رحیم چاچا سے کہنا کہ وہ خود ہی ڈاک دفتر سے ارسال کر دیں' ہم زیاده پیسے دے دیں گے' مگر کسی کو بتائیں مت۔" چھوٹی نے اثبات میں سر ہلایا۔
" ارے ہاں! اگر وہ ساتھ چلنے کا کہیں تو ہرگز نہ جانا' بھلے وہ انکار کر دیں۔ ہادیہ پیکٹ چھپاتی چلتی بنی۔ یہ گمان تک نہ تھا کہ رحیم چاچا کے اوقات میں وہاں بھائی جان کا گزر بھی ہو سکتا ہے اور نتیجہ اتنا گھمبیر
نکل سکتا ہے۔
وہ گیس کے چولہے کے سامنے بیٹھی خاموشی سے ہنڈیا بھون رہی تھی۔ کم گو پہلے ہی تھی مگر اب چہرے پر کرب اور یاسیت کے سائے لہراتے رہتے تھے۔ گم صم خاموش۔۔۔۔۔ جانے کیسے اڑتی خبر تایا ابا کے گھر پہنچی اور تایا ابا سے زیادہ تائی اماں انگشت بدنداں تھیں۔
" نہ بابا! جو لڑکی جو ابا کے گھر بیٹھی' عشق معاشقے کی پینگیں بڑھانے کے درس دے' وہ شادی کے بعد کیا کیا گل کھلاۓ گی اور میرا بیٹا بھولابھالا' سیدھا سادا۔"
انہوں نے انگوٹھی بمع سامان گھر بھجوا دی۔ اماں' ابا نے بھائی بھاوج کی بہت منتیں کیں مگر رشتہ ختم۔ اکبر پر مان کی نحیف سی کڑی تھی۔ بہت رسک لے کر جویریہ نے چھوٹی کے ہاتھ پیغام بھیجا۔
" معاف کر دیجیے' وعدہ کرتی ہوں یہ زندگی کی پہلی اور آخری غلطی ہو گی۔ میرے ماں' باپ کو پریشانی سے بچا لیں۔ ہم لکھے بغیر تو شاید جی پائیں مگر آپ کی اور ماں باپ کی ناراضگی کے ساتھ نا ممکن۔" جیسی صاف التجا تھی ویسا ہی کورا جواب آیا۔