SIZE
4 / 9

اب کے سبق سنانے کی باری بھابھی کی تھی اور سنایا بھی خوب لہجے کے اتار چڑھاؤ سے تھا۔

وہ اس کے تخیل کی پیداوار تھا' پھر اٹھتے بیٹھتے' جاگتے سوتے ہر چہرے میں نظر آنے لگا اور جب وہ چہرا شاہانہ وجاہت کا روپ دھار کر سامنے آن موجود ہوا تو اس نے اسے پوجنا شروع کر دیا ' کیا ایک انسانی وجود کو دیوتا مان کرپرستش شروع کر دینی چاہیے؟"

" لو میاں! آپ کی بہن نے سوال پوچھا ہے' دو جواب۔ بھائی جان کو جتا کر' پھر آخر سے پڑھنے لگیں۔

" حسن تو خدا کی عطا سے تھا مگر تراش خراش اور اداؤں سے خدوخال میں جاذبیت اس نے خود بھر لی تھی' کتنی عجیب بات ہے کہ وہ گھر اجاڑنے چلی بھی تھی تو کس کا' اپنی معصوم نوبیاہتا سگی بہن کا۔۔۔۔"

" ارے واہ!" انہوں نے رجسٹر پر الٹا ہاتھ مارا۔

" یہ ارادے ہیں اس کے۔ " بھابھی کے طنز بھائی جان کی برداشت سے باہر تھے۔ انہوں نے آگے بڑھ کر رجسٹر کھینچا اور دو حصوں میں پھاڑ دیا۔ وہ غراتے رہے۔ پھر رسالے، رجسٹر اور کاغذ صحن کے بیچ و بیچ ڈھیر کیے اور بھابھی سے ماچس مانگی۔

" نہیں بھائی جان ! نہیں' خدا کے لیے۔ " وہ گھٹنوں کے بل ان کے سامنے بیٹھی۔

" میں آپ سے وعدہ کرتی ہوں ، آئندہ کبھی کچھ نہیں لکھوں گی' آج سے پہلے کبھی ارسال نہیں کیا' خدا کے واسطے میرا یقین کریں' یہ مت جلائیں' میں مر جاؤں گی انہیں مت جلائیں۔"

جلتی ہوئی چنگاری جیسے ہی کاغذوں پر گری وہ بھڑ بھڑ جلنے لگے۔ بھائی اور بھابی اسے گھورتے گردن مارتے جا چکے تھے۔ مگر وہ ہذیانی کیفیت میں چلاتی " نہیں نہیں کرتی جلتے کاغذوں پر ہاتھ مارتی انہیں بجھانے کی کوشش میں لگی رہی۔

احساسات!

خواب!

دھویں میں بدل رہے تھے۔ ایک سیل رواں اس کے اناری رخسار بھگونے لگا۔ اس کیفیت میں اسے اپنی پشت پر برستے اماں کے دهموکے' اور دبوچی گردن دبوچنے تک کا احساس نہ تھا۔

" بے شرم' بے حیا' بھائی بھاوج کے سامنے ذلیل کر کے رکھ دیا تو نے مجھے' مر کیوں نہ گئی کم بخت۔" اماں کی مورتی میں جب جان پڑی تو اس پر برستی چلی گئیں ۔ آخر تھک ہار کراسے کوستی' رونے دھونے کے لیے چھوڑ گئیں ۔

وہ ارد گرد سے بے خبر صرف اپنے خیالات' اپنے لفظوں کی قبر بنانے میں لگی تھی۔ اس نے اس راکھ کو چھونا شروع کیا جس میں کچھ جلے بجھے' بھورے اکڑے سے پرزے تھے۔ کچھ سرمئی راکھ بننے کو تیار

بے دم کاغذ' اس نے سب کو سمیٹ کراک لفافے میں بھر دی تھا۔

جویریہ شروع سے ہی اپنے تمام بہن بھائیوں میں مختلف تھی۔ سنتی زیادہ' بولتی کم۔ شادی شدہ بہن آتی تو بہت شوق سے آگے پیچھے پھرتی'بچوں کے آگے بچھ بچھ جاتی۔ گھر کے تمام کام بہت پھرتی سے نمٹا دیتی' چھوٹی سی عمرمیں لپٹ سمٹ کر خاصی باشعور سی دکھتی۔ اٹھارہ سالہ لڑکی' اس عمر میں لڑکیاں شوخ و چنچل ہوتی ہیں' مگر وہ دھلا دھلایا اجلا چہرا ' لمبے گھنے بال سمیٹے۔ اپنی سوچوں میں گم۔ اس کی سوچوں نے اچانک لفظوں کا روپ دھار لیا اور کب وہ کاغذ سجانے لگی اسے اس کا خود بھی اندازہ نہیں تھا۔ ہاں البتہ اس کی بہت پسندیده مصنفہ بشری رحمن کے ایک ناول ’’لا زوال" پر اس کا شدت سے تبصرہ کرنے کو جی چاہا۔ اس نے چند سطریں کھینچ کر لفافے میں بند کیں اور چھوٹی کو سرخ ڈبے میں ڈال کر آنے کو کہا تھا۔

اس کے مدرسے کی استانی کے بیگ میں اکثرکوئی نہ کوئی رسالہ ہوتا تھا جس میں سے وہ اچھی اچھی باتېں اپنی شاگردوں کو سمجھاتی رہتی تھیں۔ اسی سبب استانی صاحبہ سے دوستی ہوئی ۔ بات رساله مانگ کر پڑھنے تک پہنچ گئی۔ ایک' دو' تین۔ اس میں تو بہت سی اچھی باتیں تھیں جو آنے والے وقت میں بہت کام آ سکتی تھیں۔ ان کو باقاعدہ پڑھنے سے سوچ نکھرتی چلی گئی۔