SIZE
1 / 9

مجھے اس عورت سے نفرت تھی ۔ انتہا درجے کی نفرت۔۔۔۔ وہ اسی قابل تھی کہ اس سے نفرت کی جاۓ ۔ وہ دونوں ہاتھ کمر پر ٹکا " تن " کر کھڑی تھی ۔ ایک فاتحانہ چمک اس کی آنکھوں سے چھلکی پڑ رہی تھی۔ میں غصے سے اسے دیکھ رہا تھا کیوںکہ اس کے سوا میں کچھ کر بھی نہیں سکتا تھا اور میں کیا میرے سارے دوست ہی اسے غصے سے گھور رہے تھے۔ مگر اسے تو کسی کی پروا ہی نہیں تھی۔ اس کا باگڑ بلا شوہر بھی اسی کے مزاج کا اور اسی کا حمایتی تھا۔ تب ہی وہ خود کو کسی ریاست کی ملکہ اور ہمیں شاید کیڑے مکوڑے سمجھتی تھی۔ اس کٹھور اور جذبوں سے خالی عورت کی یہ غلط فہمی' میں ہر صورت دور کرنا چاہتا تھا۔ مگر کیسے؟

میرے ننھے سے دماغ میں اس حوالے سے کوئی آئیڈیا نہ تھا لیکن دل میں ٹھان لیا تھا کہ اب تو بدلہ لینا ہی ہے۔ وہ ابھی تک اپنی گیلری میں کھڑی تھی ۔ ہماری گیند اس کے ہاتھ میں تھی اور ہونٹوں پر تمسخرانہ مسکراہٹ ۔ اچانک اس نے گیند کو دونوں ہاتھوں سے اچھالنا اور پکڑنا شروع کیا۔ وہ فرسٹ فلور پر رہتی تھی اور ہم گراؤنڈ فلور پر کھڑے پیچ و تاب کھا رہے تھے۔ غصہ اتنا تھا کہ مجھ سے بولا بھی نہیں جا رہا تھا اوپر سے اس نے خود گیند سے کھیلنا شروع کرکے گویا ہمارے جذبات سے کھیلنا شروع کردیا اور اس وقت تو ہمیں آگ لگ گئی جب اس نے کھیلنا موقوف کرکے مسکرا کے ہمیں دیکھا اور ٹھینگا دکھا کر اندر اپنے گھر میں بھاگ گئی۔

" کمینی ' ذلیل۔ " بے ساختہ میرے منہ سے مغلظات کا طوفان ابل پڑا۔

" اللہ کرے آدھی رات کو اس کا جنازہ اٹھے۔" جاوید بولا۔

" اس کی قبر میں کیڑے پڑیں۔" نعمان کیوں پیچھے رہتا۔

ابھی شاید ہمارے جذبات کے اظہار کا سلسلہ جاری رہتا کہ میری ماں نے مجھے آواز دے ڈالی۔ ہمارا گھر بھی فرسٹ فلور پر تھا مگر اس چڑیل کے گھرسے دس گھر آگے۔ میں نے بیٹ خوامخواہ زمین پر مارا اور سیڑھیوں کی طرف بڑھا۔ گیند پہلے ہی اس کے قبضے میں جا چکی تھی اور کھیل رک چکا تھا۔ میں ٹیم کا کپتان تھا اور بنا کچھ کیے گھر جا رہا تھا تو باقی لڑکوں نے وہاں رک کر کیا کرنا تھا۔

میرا دماغ غصے سے کھول رہا تھا اور کوئی چیز کھانے کو دل نہیں چاہ رہا تھا اتنا مگر ماں نے میرا پسندیدہ کھانا قیمہ پالک اور بگھارے چاول بناۓ تھے۔ ناچار مجھے بیٹھنا پڑا۔ میرے سامنے کھانا رکھ کر وہ واپس اپنے دوسرے کاموں میں مصروف ہو گئی اور میں کھانے میں کہ دفعتا شور سا سنائی دیا۔ میں نے آوازوں پر کان لگایا تو جاوید کی ماں کی اسی چڑیل سے لڑائی ہو رہی تھی۔

میری آنکھوں میں آنسو بھر آۓ ایک تو ہمیں کھیلنے نہیں دیتی دوسرا ہماری ماؤں سے لڑتی بھی ہے۔ ہم کس قدر بے بس اور کمزرو تھے۔ چھوٹے جو تھے۔ چھوٹے نہ ہوتے تو اسے ایسا مزہ چکھاتے جس نے پورے محلے کے بچوں کا جینا حرام کر رکھا تھا۔ اوپرسے ہماری ماؤں سے بھی لڑتی تھی۔ اس نے دو دفعہ میرے ابا سے شکایت کر کے مجھے پٹوایا بھی تھا۔۔۔ میری آنکھیں برسنے لگیں۔ ماں جو یہ شور سن کر باہر جا رہی تھی اس کی غیرارادی نگاہ مجھ پہ پڑی اور مجھے روتا دیکھ کر وہ باہر کا شور بھول کر لپک کر میرے پاس آئیں۔

" کیا ہوا منہ جل رہا ہے۔ پانی لاؤں۔" میں نے نفی میں سر ہلایا۔ " میرا دل جل رہا ہے۔"پتا نہیں کیسے یہ الفاظ میرے منہ سے پھسلے۔

ماں نے حیرت سے مجھے دیکھا۔ میں بہادر تھا۔ نجانے کیسے میرے ننھے سے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ مرد بہادر ہوتے ہیں اور جو بہادر ہوتے ہیں وہ روتے نہیں ہیں بلکہ ظلم کا مقابلہ کرتے ہیں۔ اب یہ ظلم حالات کی پیداوار ہو یا انسانوں کی۔ مگراس وقت یہ فلسفہ میرے ذہن سے نکل گیا تھا۔ میں رو رہا تھا۔