SIZE
4 / 9

رشتے داروں کوطیبہ کی رخصتی سے زیادہ نانی کے رویے کی جانچ کا شوق و انتظار تھا۔ اور سب منتظروں کو اپنے منہ اپنے ہی گریبانوں میں چھپانے پڑے۔ ممتا کی آنکھوں سے نمی تو کیا جھلکنی تھی تانی تو اگلے ہی دن سامان پیک کر کے کسی منہ بولے بیٹے کے گھر روانہ ہو گئیں۔

یہ وطیرہ نانی نے اسی دن سے اختیار کیا ہوا تھا۔ جب دل گھبرایا۔ کسی منہ بولے بیٹے کے گھر روانہ ہو گئیں۔ اور نانی کا دل مانو سارا سال گھبراتا ہی رہتا تھا۔ کسی بیٹے کے گھر ان کا قیام زیادہ لمبا نہ ہوتا کبھی سننے میں آتا کہ آج کل فیصل آباد میں ہیں وہاں طیبہ نے کوئی ضروری کام بھجوانا ہوتا تو خبر ملتی کہ اب تو وہ " سمندری" بھی نکل گئی ہیں۔ سمندری جا کر پتا چلتا کہ کل ہی ملتان روانہ ہو گئی ہیں۔

ان کے اس مختصر قیام کی وجه بھی وہ خود ہی تھیں۔

منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کو تو وہ کسی طور بھاتی ہی نہ تھیں۔ ان کے گھروں کے دائیں بائیں کی تتلیوں کی آنکھوں میں بھی نانی سنگریزے کی طرح چبھتی تھیں۔

" ہاجرہ بھابی۔۔۔۔۔۔ آپ کی خالہ ساس کیا بچپن سے ہی نیم کے پتے کھاتی آ رہی ہیں۔۔۔۔ قسم سے منہ سے کچھ نہ ہی بولیں تو آنکھوں سے ہی ایسی گھوری ڈالتی ہیں کہ بندہ بنا با تیل بنا ماچس کے ہی بھسم ہو جاتا ہے۔ " " ہماری جانے بلا۔۔۔۔ پتا نہیں کہاں سے یہ سوغات ہر دوسرے تیسرے مہینے منہ اٹھا کر چلی آتی ہے۔۔۔۔۔"

" کوئی اپنا سگا نہیں ہے ان کا؟"

" ہے ایک بیٹی۔۔۔۔۔ پر پتا نہیں وہاں کیوں نہیں ٹکتیں۔ جکھڑوں کی طرح دربدر ہوئی پھرتی ہیں۔"

چند ایک دو نیک سیرت بہوؤں نے بڑی کوشش بھی کی کہ خالہ ساس کے اندر کے دہکتے لاوے کو کسی طور ٹھنڈا کر سکیں اور عورت جاتی کے خلاف ان کی نفرت کو کم کر سکیں۔ لیکن یہاں تو معاملہ دھویں اور دهند کی طرح تھا۔ جب کچھ نظر آنے لگتا تو جلتی لکڑیوں کی کاٹ میں آنکھیں کھولنے کی ہمت ہی نہ رہتی اوپر سے جب نیک سیرت بہوؤں کے شوہروں کو بھی دوسرے منہ بولے بیٹوں کی طرح بھڑکایا جاتا تو نیک سیرت بہوؤں کا بھی سارا ادب ولحاظ چنے کے کھیت کی طرح رنگ بدل لیتا اور نیک سیرت بہویں زبان درازی میں چالاک بہوؤں کو بھی مات دے جاتیں۔

خیرنانی نے کبھی اس چیز کی پروا نہیں کی۔ بچپن سے ہی انہوں نے اپنے لیے

جو مقصد طے کر لیا تھا وہ اس پر بڑی سختی سے عمل پیرا رہا کرتی تھیں' یہ سارے واقعے ان کے لیے مصالحہ لگی کیری سے کم چٹخارے دار نہ تھے۔

" اے جمیل۔۔۔۔ تیری بیوی کیا ہروقت سر پر پٹی باندھ پلنگ پر لیٹی رہتی ہے۔۔۔۔ ہمارے وقتوں میں تو ایسا نہیں ہوتا تھا۔۔۔۔ نو' نو بچوں کو بھی جنو اور گنے کی طرح سیدھے اور میٹھے بھی رہو۔"

" عابد بیٹا۔۔۔۔ ہوش کے ناخن لے۔ یہ جو تیری بیوی بڑی صفائی پسند بنی رہنے کے چکر میں ہر دوسرے تیسرے دن کپڑے دھو دھو کر اوپر ڈالنے جاتی ہے نا تو یہ کسی دن اوپر سے اوپر ہی بھاگ جائے گی۔۔۔۔ تیرا منہ کالا کرکے۔۔۔۔ دیکھ لیے ہیں میں نے اس کے لچھن۔"

" تیری بیوی کی آواز بہت سریلی ہے زاہد۔۔۔۔ کسی کوٹھے والی کا خون لگتی ہے۔"

بیٹے ان کی باتوں پر کان کم ہی دھرتے تھے۔ ان کی عادت خصلت کا پتا جو تھا انہیں۔۔۔۔ پھر بھی کسی ایک آدھ بہو کے کان میں اپنی ہی شان میں بولے جانے والے جملے کی بھنک بھی پڑ جاتی تو گھر بھر میں بھی قیامت آ جاتی۔

" صبح کا سورج یہ بڑھیا اس گھر میں دیکھے گی یا میں۔"

لڑکے بے چارے کیا کرتے۔۔۔۔۔ نانی کا سامان پیک کرکے کبھی دوسرے لڑکے کے گھر روانہ کر دیتے۔۔۔۔ یوں پورے پاکستان کا چکر لگاتی نانی کبھی کبھی طیبہ کے گھر بھی آ جاتیں۔۔۔۔ آ جاتیں نہیں بلکہ بھجوا دی جاتیں۔