" تمہاری سگی بیٹی بھی تو رہتی ہے اسی شہرمیں۔۔۔۔ پھر اس کے گھر کیوں نہیں رہیں تم؟"
" اس کے گھر جاؤں۔۔۔۔۔ چور' ڈاکو' لٹیرن' بھوکی نظروں والی ۔۔۔۔۔ میری دولت کی لالچی۔۔۔۔۔" نانی نخوت سے بولتیں۔
" تمہارے پاس دولت ہے ہی کتنی؟؟"
" کیوں پانچ تولہ سونا کیا کم ہوتا ہے۔۔۔۔۔؟ "
دس تولہ ہو تو چاہے سو تولہ۔۔۔۔۔ انسان کو ہمیشہ مزید ہوس رہتی ہے۔"
" تو دے دو نہ اسے۔۔۔۔ اور کسے دے کر جاؤ گی۔"
" مسجد میں دے دوں گی۔ مگراس چنڈال کونہیں دوں گی۔"
" کیوں؟ ایسی کیا خطا کردی اس نے۔"
" ارے بھئی۔۔۔۔ سمجھونا۔۔۔۔۔ وہ بھی عورت ہے۔ کیا کم خطا ہے اس کی۔" نانی کے بجاۓ کوئی تیسرا ان کے دل کی بات کرتا۔
" کبھی خبر ہی نہ لی کہ ماں کہاں ہے۔ ماں در بدر اور بیٹی کے ہنی مون ہی تھمنے میں نہیں آتے۔"
" اس کا شوہر آرمی میں ہے۔ بار بار پوسٹنگ ہوتی ہے اس کی۔۔۔۔۔ جسے تم ہنی مون کہہ رہی ہو وہ ان کی مجبوری ہے ۔ اور تم کون ساماں بن گئی جو وہ بیٹی بنے۔"
" گھر جاؤ تو نہ کبھی پانی کو پوچھے' نہ روٹی کو۔"
" کیا نواسیاں بھی ایسی ہی ہیں؟"
" وہ تو اپنی ماں سے بھی چار ہاتھ آگے ہیں۔۔۔۔۔ ان کی نظریں تو میری چابیاں تولتی ہیں۔۔۔۔ کہ کب نانی مرے اور یہ کب ان کے قبضے میں آئیں۔۔۔۔ مگر میں بھی دیکھوں گی کہ کیسے ہاتھ لگاتی ہیں ہاتھ ان کو۔۔۔۔ کنویں میں پھینک۔۔۔۔"
" چھوڑو نانی۔۔۔۔ میں نے خود دیکھا ہے ان کو تمہاری خدمت کرتے۔۔۔۔ کوئی پاؤں داب رہی ہوتی ہے۔۔۔۔ کوئی پنکھا جھل رہی ہوتی ہے۔"
" سب دکھاوا ہے۔۔۔۔ ڈرامے بازیاں۔۔۔۔ جو وہ آنے جانے والوں کے سامنے کرتی ہیں۔۔۔۔۔۔ فقیرنیوں کی طرح گھیرا ڈا ل لیتی ہیں۔
نانی کی باتوں میں حقیقت کچھ اس حد تک تھی کہ منہ بولے بیٹے رخصت کرتے وقت جو دو چار چیزیں ساتھ کرتے تھے۔۔۔۔ نواسیاں انہیں للچائی نظروں سے دیکھا کرتی تھیں۔۔۔۔ کسی سوٹ یا کسی جوتی کو۔۔۔۔ ملا تو انہیں کبھی کچھ نہیں۔۔۔۔۔ اس لیے جوں جوں بڑی ہوتی گئیں ان کی یہ عادت خود بخود ہی ختم ہو گئی ویسے بھی اب ان لینے دینے والے کچرا ڈیزائن کے سوٹوں کو پوچھتا ہی کون تھا۔ آج کل تو بازاروں میں یک رنگی عربی لان ہی چھائی ہوئی تھی۔
ہفتے دو ہفتے طیبہ کے گھر رہنے کے بعد جب نانی ذرا ذرا سی بات پر بڑا بڑا بھونچال اکٹھے کرنے لگتیں تو طیبہ کو علم ہو جاتا ہے کہ اب اماں پھر سے ہجرت کرنے کے لیے پر تول رہی ہیں۔ طیبہ کی اتنی حیثیت بھلا کب تھی کہ وہ اپنی سگی ماں کو جانے سے روک ہی پاتی۔
ایسے ہی وقتوں میں قریہ قریرگھومتی نانی کی طبعیت اچانک ایک دن خراب ہو گئی۔ گردوں میں کوئی خرابی ہو گئی۔ رشتے داروں نے سکون کا سانس لیا کہ اب تو طیبہ کے گھر قیام کریں گی۔ لیکن نانی کے پیروں پر ٹرین کے پہیے نصب ہو چکے تھے۔ دوائیوں کے بنڈل باندھے بانگ درا بجاتیں نانی نے اپنے پھیرے ٹورے جاری رکھے۔
پہلے جو صرف ناک بھوں چڑھائی جاتی تھی۔ اب باقاعدہ کھری کھری سنائی جانے لگیں۔
" کچھ خیال کرو اپنی بیماری کا۔۔۔۔ اور کچھ رحم کرو ہماری حالتوں پر ۔۔۔۔ بچوں کو جراثیم لگ گئے تو اتنے امیر نہیں ہیں ہم کہ مہنگے ڈاکٹروں کو دکھاتے پھریں ۔" بہویں الگ آتے جاتے بے عزتی کرتیں۔۔۔۔ ادھر وہ بے چاریاں صفائی کرتیں۔ ادھر نانی بلغم زرہ کھانسی کھانس دیتیں یا پان کی پچکاری ہی سڑک دیتیں۔
" اپنی بیٹی کے گھر کیوں نہیں جاتیں تم۔۔۔۔ وہ صاف کرے تمہارا یہ گند موت۔۔۔۔۔ ہم سے تو نہیں ہو تا یہ سب۔۔۔۔" پھر جیسے ماں باپ تھے بچے بھی ویسے ہی تھے۔
" اتنے فارغ نہیں ہیں ہم نانی کہ ہسپتالوں میں اپنا قیمتی وقت ضائع کریں۔"
طیبہ کے پاس ان ساری باتوں کی کترنیں پہنچیں تو ماں کو لینے ساہیوال پہنچ گئی۔ وہاں سے پتا چلا میانوالی میں ہیں۔۔۔۔۔ خیر سرگودھے سے مل گئیں۔۔۔۔ پھر آخر۔۔۔۔۔ حال و بے حال۔۔۔۔ پاوں پکڑ پکڑ کر کھاریاں کے لیے راضی کیا۔ گاڑی تیار کروائی ۔ خاندان والوں نے ایک طرح سے کہہ دیا کہ اب دوبارہ نہ آنا۔ ہمارے گھروں میں۔۔۔۔۔ اپنی بیٹی کے گھر ہی رہنا۔