SIZE
3 / 9

یوں بھی نہیں تھا کہ وہ بہنوں سے بالکل ہی لا تعلق تھیں۔ کسی کی بیٹی کہاں بیاہی جانے لگی ہے۔ کسی کی لڑکی کا آج کل کہاں چکر چل رہا ہے۔ انہیں ساری خبریں ہوتی تھیں۔ اور ان ساری خبروں کو پھیلانا ان کا اولین فریضہ ہوتا۔۔۔۔ سننے والے فورا یقین کر لیتے کہ سگی خالہ کہہ رہی ہے تو پھر لڑکی واقعې چالو ہوگی۔۔۔۔۔ بہنوں کو سب پتا چل جاتا تھا۔ لیکن نانی کے معاملے میں وہ ہمیشہ خاموش رہتیں۔۔۔۔ پتا نہیں وہ کونسا کفارہ تھا جو یوں خاموش رہ کر ادا کر رہی تھیں۔

کسی کے گھر شادی ہوتی تو وہ نانی کے پاؤں تک پڑنے کو تیار ہو جاتی۔۔۔۔ ساتھ لے کر جانے کے لیے۔ شادی لڑکے کی ہوتی تونانی چلی بھی جاتیں۔ لیکن اگر وہ عورت ۔۔۔۔۔ صنف مونث۔۔۔۔۔۔ وہی ازلی کمینی ذات کی ہوتی تو پھر تو چاہے سالوں دہلیزوں پر بیٹھے رہو نانی کے گھر۔۔۔۔ نانی نہ اٹھنے کی۔

کچھ ایک دو بہنوں کے بیٹوں دامادوں کو ہی انہوں نے اپنا منہ بولا بیٹا بھی بنارکھا تھااوران منہ بولے بیٹوں کی تعدار حد سے زیادہ تھی۔ ان منہ بولے بیٹوں کا پھیلاؤ پورے ملک کی حدود پر پھیلا تھا۔

کہنے والے کہتے تھے جب اپنے سگے بیٹے ہو جائیں گے تب یہ کچے رشتے خود ہی بھربھرا جائیں گے۔ کچھ دعا بھی کرتے تھے کہ اسے کبھی بیٹا نہ ہو یا تو پھر وہ بیٹا ساری زندگی کنوارا رہ جاۓ گا اور اگر کہیں سے کوئی لڑکی بیاہ بھی لایا تو لڑکی چار دن بعد ہی مر جاۓ گی زہریلی کھمبیاں کھا کر۔۔۔۔ اپنے ہاتھوں سے یا نانی کے ہاتھوں سے ۔۔۔۔۔۔

کچھ نانی کے ہاتھوں بد نام ہوئی لڑکیوں کے ماں باپ باقاعده بد دعا کرتے تھے۔

" خدا کرے اس کی بھی ساری لڑکیاں ہوں جو اٹھتے بیٹھے اس کا منہ کالا کریں۔ تب پوچھیں گے اس سے کہ دوسروں کی عزت اچھالنے کا تجربہ کیسا ہوتا ہے؟ لیکن ایسا ویسا کچھ بھی نہ ہوا۔

نہ اپنے سگے بیٹے ہوئے۔۔۔۔نہ کچے منہ بولے رشتے بھربھراۓ ۔۔۔۔ لے دے کے وہی ایک رحمت۔۔۔۔ طیبہ۔۔۔۔۔ نہ اس سے پہلے کچھ ہوا نہ ہی بعد میں۔

طیبہ پیدا ہوئی تو نانی کو جیسے گومڑ زیادہ پک جاۓ تو اپنے آپ ہی پھٹ پڑتا ہے۔ ویسے ہی سالوں کی پکتی نانی پھٹ پڑیں۔

طیبہ کی پیدائش کے دن سے انہیں طیبہ اور خدا۔۔۔۔۔ دونوں سے خدا واسطے کا بیر ہو گیا۔ خدا سے تو یوں کے جیسے خدا نے ان سے کوئی کا پچھلا بدلہ لیا ہے۔ عورت ذات سے نفرت کے باوجود خدا نے انہیں بیٹی دے کر کوئی پرانی دشمنی نکالی ہے اور طیبہ سے اس طرح کہ یہ تو پیٹ کے اندرہی مرکیوں نہ گئی۔ حالا نکہ تب علاقے کی دائی نے ان سے کہا تھا۔

" تیرا رنگ روپ نکھر رہا ہے خدیجہ۔۔۔۔ تیری زبان بھی خشک نہیں۔۔۔۔ تیرے پیٹ میں بیٹی ہے۔"

لیکن نانی نے اس کی بات پر کان نہ دھرے۔ دائی کے تجربے سے کہیں زیادہ انہیں اپنی دعاؤں پر یقین تھا۔ لیکن دعائیں قبول نہ ہوئیں اور لوگوں کے جملے کے " اپنی بیٹی ہوگی تودیکھیں گے کیسے کرتی ہے عورت ذات سے نفرت ؟" ان باتوں نے نانی کا دل طیبہ کی پیدائش سے بہت پہلے ہی چٹان کی طرح سخت کر دیا۔ اتنا کہ مہینے بھر بعد جب شوہر' بیٹی کے لیے نام پوچھ پوچھ کر تھک گیا تو اس نے خود ہی لڑکی کا نام طیبہ رکھ لیا۔ بڑے سال تو نانی اپنی ہی بیٹی کو وہ' اسے' یہ کہہ کر بلاتی۔

رہیں۔ نہ اپنا دودھ پلایا نہ ہی کچھ اور بنا کر کھلایا۔ بس اٹھتے بیٹھتے خدا کو رو کر دکھایا۔

" تو نے سات بھائی نہ دیے۔۔۔۔۔ ایک بیٹا ہی دے دیتا تو کیا جاتا تیرا؟" نانی کا غم انت ہو گیا۔

طیبہ خود رو بوٹی کی طرح اگی تھی۔ خود ہی پلتی بڑھتی رہے۔ جیسے کیاری اگی بیلا درخت کو سہارا بناۓ پروان چڑھتی چلی جاتی ہے۔ باپ نے جب تک جان ماری زندہ رہا۔ مرتے وقت وہ یوں بھی مطمئن تھا کہ چلو طیبہ اپنے گھر کی تو ہوئی۔