( ہونہہ) دیوار پر کون سا پرنس ولیم اپنی فیملی کے ساتھ رہتا ہے جس کو دیکھنے کے لیے میں اتنی مشقت کروں؟) نفاست سے چائے کا کپ تھامے ربیعہ نے نخوت سے سر جھٹکا تھا۔
" اوہ رئیلی؟" اسجد کا ردعمل توقع کے عین مطابق تھا۔ ربیعہ نے مسکراتے ہوئے شانے اچکاۓ۔
" مطلب میں باپ بننے جا رہا ہوں؟" اسجد کے پر مسرت بے یقین سے لہجے پر اس نے مصنوعی خفگی سے ابرو چڑھائے تھے۔
" تو کیا میں جھوٹ بول رہی ہوں؟"
" ارے نہیں یار! تم نے اچانک اتنی بری گڈ نیوز سنا دی' سمجھ نہیں آرہا کیسے اپنی فیلنگز ایکسپریس کروں۔" اسجد محبت پاش لہجے میں بول رہا تھا۔ وہ دن اور اس سے آگے طلوع ہونے والا ہر دن ربیعہ کے لیے اپنے دامن میں بہت کچھ لے کر آتا۔
محبت' توجہ' مان وہ مغرور سی ان نوازشات کو حق سمجھ کر وصول کرتی رہی۔
چھوٹی بھابی پھر امید سے تھیں۔ " بھابی! الٹرا ساؤنڈ کروایا؟ اس بار بھی بیٹی تو نہیں؟" نیل پالش پر پھونکیں مارتی بظاہر وہ ہمدردی سے پوچھ رہی تھی۔
کپڑے استری کرتے چھوٹی بھابھی کے ہاتھ لمحہ بھر کے لیے تھمے۔ پھر آہستگی سے کہا " جو خدا کو منظور۔"
" ہا! جو خدا کو منظور۔" ربیعہ نے طنزیہ ہنکارہ بھرا تھا۔
ان دونوں اسجد کی آفس میں مصروفیات بڑھ گئی تھیں۔ مہناز بیگم کی اپنی مصروفیات تھیں۔ ربیعہ جوسز پی کر' ریسٹ کرکے اور اپنے لئے رکھی گئی کل وقتی ملازمه کو ہمہ وقت اپنے سر پر سوار دیکھ کر بری طرح اکتا گئی تھی۔
بعض اوقات بہت زیادہ آرام بھی تھکاوٹ کا سبب بنتا ہے۔ یونہی بیٹھے بٹھاۓ ایک دن نجانے اسے کیا سوجھی۔ بائیں جانب دیوار کے ساتھ بنے اسٹییپ پر
چڑھ کر دیوار پر دونوں ہاتھ جمائے' دوسرے ہی لمحے اسے اپنا دماغ چکراتا ہوا محسوس ہوا۔ وہ تو کوئی اور ہی دنیا تھی۔ موٹے نقوش کی حامل سانولی عورتیں' ستاروں سے جھلملاتے ریشمی کپڑے' نقلی زیورات پہنے دبلی پتلی لڑکیاں اور نیکر بنیان میں ملبوس ہڑبونگ مچاتے' کچے صحن میں بھاگتے دوڑتے بچے' لوٹنیاں لگاتے ہر عمر و سائز کے بچے۔
ہر کوئی متحرک' کاموں میں' باتوں میں!
ربیعہ پر نظر پڑی تو سب کچھ دیر کے لیے تم سے گئے۔ " کنوار( دلہن)؟" سیاه شلوار پرجامنی قمیض پہنے دوپٹہ دیہاتی اسٹائل میں سر پر لپیٹے برتن مانجھتی عورت کے لبوں سے نکلا تھا۔ سب کی نگاہوں میں حیرت انگیز حسرت کی جگہ اشتیاق امڈ امڈ آیا۔
ربیعہ تیزی سے نیچے اتری۔ سامنے کا ماحول اور منظر دیکھ کر اسے بے اختیار ابکائی ائی تھی۔
مصیبت کبھی بتا کر نہیں آتی۔
اس دن ٹائلز والے واش روم میں اس کا پاؤں بری طرح رپٹ گیا تھا۔
وہ اماں کے گھر ایک پُر تکلف دن گزار کر عصر کے وقت واپس لوٹی تھی۔ چونکہ ڈلیوری کے دن قریب تھے تو اماں کے گھر چکر کئی روز بعد ہی لگاتی۔
اسے اس سمے ہفت اقلیم اپنی نگاہوں کے سامنے گھومتے محسوس ہوۓ۔ درد اتنا شدید تھا کہ ناقابل بیان۔۔۔۔ کئی گھنٹے موت و زیست کی جنگ لڑتے اسنے مردہ بیٹے کو جنم دیا تھا۔ ممتاز بیگم بے دم ہو کر صوفےگر گئیں' اسجد کی
آنکھیں شدت غم سے سرخ ہو رہی تھیں۔ مزید روح فرسا خبر" وہ کبھی ماں نہیں بن سکے گی۔" ربیعہ نے نے آنکھیں کھولیں تواپنی خالی گود کو دیکھا' خالی کوکھ کا احساس وحشت بن کرچھا گیا۔ وہ روئی' چیخی' تڑپی اور گالیاں دیں اور چپ سادھ لی۔ ایسی چپ جس میں موت کا سنا سناٹا تھا۔ " کیا یوں بھی ہوتا ہے؟ اذیت ہی اذیت تھی۔
وقت تھمتا نہیں ہے اپنی مخصوص رفتار چلتا آگے بڑھ جاتا ہے۔ بہت کچھ اپنے پیچھے چھوڑ کر نجانے کتنے عرصے کے بعد وہ اماں کے گھر جانے کے لیے خود کو تیار کر پائی تھی۔ موقع ہی ایسا تھا۔ چھوٹی بھابی نے بیٹے کو جنم دیا تھا۔
یہ خبرسن کر وہ کئی ثانیوں تک یوںہی خالی الذہنی کی کیفیت میں چپ سی بیٹھی رہی۔ پھر اٹھی '