سعادت مند بیٹے نے ماں کی خواہش پر فرمانبرداری سے سر جھکا دیا تھا۔ تھوڑے ہی عرصے میں انہیں " ربیعہ " کی سورت اپنا گوہر مقصود مل گیا۔
ربیعہ کے لیے اتنی خوبیوں کا حامل کا رشتہ پا کر اماں کے پاؤں خوشی سے زمین پر نہیں ٹک پا رہے تھے۔
" کچھ لوگ ہمیشہ سے ہی قسمت کے بہت دھنی ہوتے ہیں۔" بڑی بھابی کا تبصرہ۔
" شکر خورے کو خدا شکر دے ہی دیتا ہے۔" چھوٹی بھابی کی طویل ٹھنڈی سانس۔
"خس کم جہاں پاک۔" نائمہ بھابی نے دونوں ہاتھ جھاڑے تھے۔
ربیعہ کی " نازک مزاجی" کا زیادہ تر عتاب وہی بنتی تھیں۔ اب اس کا یوں جھٹ منگنی پٹ بیاہ والا معاملہ دیکھ کر انہوں نے خاصا سکون کا سانس لیا تھا۔
ڈیکو پینٹ کا بیش قیمت فرنیچر' بہترین کراکری' الیکٹرانک کی چھوٹی بڑی اشیا' جديد تراش خراش کے ملبوسات ' برانڈڈ جوتے' کاسمیٹکس' سب کچھ پرفیکٹ! بڑے بھیا لسٹ پر نگاہیں دوڑا رہے تھے۔
" بظاہر تو سب کچھ پرفیکٹ ہے ربیعہ! تمہیں اگر کوئی کمی بیشی لگے تو
بتانا مجھے پھر۔"
" مجھے تو سب کچھ ہی پرفیکٹ چاہیے بھیا ! ذرا سی بھی " کمی" نہیں چلے گی۔"
صوفے پر آلتی پالتی مارے' کشن گود میں رکھے' ناخن فائل کرتی ربیعہ نے انگوٹھے اور انگلی کو ملا کر " ذرا سا" اشارہ کرتے ہوۓ ٹھنک کر کہا۔ بڑے بھیا ہنسے تھے۔
" تو اور کیا! میری ربیعہ کا جہیز ایسا ہونا چاہیے کہ لوگ دیکھیں تو دیکھتے رہ جائیں' کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے چار بھائیوں کی اکلوتی بہن کا جہیز بس یونہی سا ہے۔"
اماں کی بات پر دادی ٹوکے بنا نہ رہ سکیں۔ ” چادر دیکھ کر ہی پاؤں پھیلانے چاہئیں بہو! خدا ہماری بچی کا نصیب اچھا کرے۔ یہ مادی چیزیں سچی خوشیوں کا ضامن نہیں ہیں۔ " گو کہ ان لہجہ نرم تھا لیکن اماں کو بے حد برا لگا ۔ سچی بات جتنے بھی شیریں لہجے میں کی جائے کڑوی ہی لگتی ہے۔
" ارے واہ دادی ! آپ کو کیا پتا سسرال میں انہی چیزوں کی وجہ سے ہی کتنی ویلیو بڑھتی ہے۔" ربیعہ نے دادی کے " پرانے خیالات" کو ناک پر بیٹھی مکھی کی طرح اڑا دیا۔
" اپنی اپنی سوچ کی بات ہے۔" دادی گہری سانس کھینچ کر چپ ہو گئیں۔
انہیں پوتی کا یوں بڑوں کی موجودگی میں اپنی شادی اور جہیز وغیرہ کے معاملے میں بولنا نا گوار لگا تھا۔
" اچھا تم فکر مت کرو۔ ہم تمہاری شادی میں کسی قسم کی کمی نہیں چھوڑیں گے ۔ چاہے کسی سے ادهار ہی کیوں نہ پکڑنا پڑے۔ آخر کو ایک ہی تو بہن ہو ہماری۔" فواد بھیا کی بات پر ربیعہ کی گردن احساس تفاخر سے کچھ اور اکڑ گئی تھی۔
کچھ لوگوں کے لیے شادی بور کا لڈو ہوتی ہے لیکن ربیعہ کے لیے پھولوں کی سیج ثابت ہوئی تھی۔ اسے سال میں مان' مقام' آرام سب کچھ ملا تھا۔ وہ شکم سیر تھی مزاج کی تازگی عروج پر کیونکر نہ پہنچتی ۔
" بھابی! ادھر بائیں طرف دیوار کے ساتھ دو اسٹیپ بنے ہوئے ہیں۔ جب کبھی بور ہوں تو اس پر چڑھ کر ہمسائیوں کے گھر "جھاتی" مار لینا۔ سچ میں ساری بوریت دور ہو جائے گی۔ شادی سے پہلے میرا اور شمسہ کا زیادہ تر وقت انہی اسٹیپ پر چڑھ کر دیوار پار ہمسائیوں کے ساتھ بات چیت کرنے میں گزر جاتا تھا۔ اب بھی میں توجب بھی امی کے ہاں اؤں تو ٹائم نکال کر لازمی ادهر چڑھتی ہوں۔ اس کی نند فضہ چائے کے کپ میں چینی ملاتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
" سچ مفت کی انٹرٹینمنٹ ہے۔" شمسہ ہنسی تھی۔ پھر اپنا چائے کا کپ اٹھا کر دوسرا اس کی جانب بڑھایا۔ ربیعہ نے یونہی سرہلایا۔