" آج بریانی نہیں پکی کیا؟"
کھانے کی میز پر دھرے لوازمات دیکھ کر ربعیہ نے بڑی بھابی کی طرف استفہامیہ نگاہوں سے دیکھا تھا۔ باقی سب بھی کھانا شروع کرنے سے پہلے ہاتھ روکے ان دونوں کی طرف متوجہ ہو گئے تھے۔ بڑی بھابی گڑبڑا گئیں۔
" نہیں! اصل میں کپڑے دھوتے کافی دیر ہو گئی آج اور عانیہ' آئمہ بھی صبح سے مٹر قیمہ کھانے کی فرمائش کر رہی تھیں تو میں نے مٹر قیمہ پکا لیا بریانی کل پکا لوں گی۔"
ان کا انداز قدرے وضاحتی سا تھا۔ ربعیہ کے چہرے پر تناؤ سا آ گیا۔
" چہ خوب بھابی! اپنی بیٹیوں کی فرمائش تو آپ کو یاد رہی۔ لیکن میری پسند نا پسند کی کوئی اہمیت نہیں۔ ان دونوں نے تو آج قیمہ مٹر کی فرمائش کی جبکہ میں کل رات ہی آپکو بریانی پکانے کا کہہ چکی تھی۔"
لقمہ توڑتے بڑے بھیا کا ہاتھ رک گیا تھا۔ خشمگیں نگاہوں سے بیوی کو دیکھا۔
" جب ربعیہ بریانی پکانے کا کہہ چکی تھی تو پکائی کیوں نہیں ؟" الفاظ سے کڑا لہجہ تھا بڑی بھابی نے تھوک نگلا۔
" وہ۔ میں نے سوچا۔"
" یہ سوچنے سمجھنے کا کام تو تم رہنے ہی دیا کرو ۔ جو کہا جاۓ بس وہ کیا کرو۔" انہوں نے بات پوری ہونے سے پہلے بیوی کو بری طرح جھڑک دیا تھا۔ بڑی بھابی سب کے سامنے بہت سبکی محسوس کر رہی تھیں۔ شوہر کے آتش فشاں مزاج سے اچھی طرح واقف تھیں اور یہاں تو معاملہ بھی چار بھائیوں کی اکلوتی لاڈلی بہن کی فرمائش کا تھا۔
" آج دن میں بھی ڈھنگ سے کچھ نہیں کھایا۔ سوچا تھا رات کو پیٹ بھر کر بریانی ہی کھاؤں گی لیکن۔"
ربعیہ رقت آمیز لہجے میں کہہ رہی تھی۔ اماں کے دل پر ہاتھ پڑا تھا۔ بڑے بھیا نے ملامتی نگاہوں سے بیوی کو دیکھا جو خفت سے ہونٹ کاٹتی خود کو کوس رہی تھیں۔ جہاں اتنا کچھ کر لیا وہاں بریانی بھی پکا لیتیں۔
" اگر بڑی بھابی مصروف تھیں تو تم پکا لیتیں۔ بریانی پکانا کونسا مشکل کام ہے؟"
لگے ہاتھوں کاشف نے بھی بیوی کی خبر لینی چاہی۔ وہ جز بز ہو کر رہ گئی۔ ان دنوں وہ امید سے تھی اور بڑی بھابی نے اس کی طبعیت کے پیش نظر ازخود شام کا کھانا پکانے کی ذمہ داری اپنے سر لے لی تھی۔
" بیٹا! دستر خوان پر بیٹھ کر بد مزگی نہیں کرتے۔ باقی جو اتنی ساری نعمتیں سامنے رکھی ہیں۔ ان کی نا شکری مت کرو۔" دادی نے ماحول کا تناؤ محسوس کیا تو شفیق لہجے میں بولیں۔
" ہونہہ! اگر میرا کھایا پیا کسی کو اچھا لگتا تو آج یہاں بریانی رکھی ہوئی ہوتی آپ سب ہی کھائیں یہ نعمتیں۔" ربعیہ کرسی دھکیل کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ اپنے کمرے کا دروازہ زوردار ٹھاہ کے ساتھ بند کیا۔ سب ہی جانتے تھے اب یہ دروازہ صبح ہی کھلے گا۔
" سارے دن کی بھوکی میری بچی بے چاری بھوکے پیٹ ہی سو جاۓ گی۔"
اماں کی بڑبڑاہٹ ' چاروں بھائیوں کی پیشانی پر بل پڑے۔ بیویاں شرمندگی سے دو چار ' عانیہ' آئمہ اپنی جگہ چور بنی بیٹھی تھیں۔
ربعیہ بنا کچھ کھاۓ اٹھ کر گئی تھی۔ سو سب ہی نے کھانے سے ہاتھ کھینچ لیے۔ دادی نے تاسف سے سر ہلایا۔ اچھا خاصا ماحول مکدر ہو گیا تھا۔