رمضان سے ایک دن پہلے انہوں نے سارے محلے کی عورتوں کے لیے محفل میلاد کا اہتمام کیا مقصد اس مدرسے کی جملہ خوبیوں سے آگاہ کرنا تھا اور لوگوں کو مزید چندے کے لیے اکسانا بھی۔ بیگم راحیلہ اس دن کی تکرار کے بعد وہاں آنا نہیں چاہتی تھیں لیکن زبیده زبردستی لے آئی۔ مدرسہ واقعی شاندار بنا تھا۔ حفظ' تجوید' ترجمہ و تفسیر کے علیحدہ علیحدہ حصے بنائے گئے تھے اوپر بڑے ہال میں۔
عورتوں کے بیٹھنے کا انتظام باہر گلی میں کیا گیا اور ٹینٹ لگائے گئے تھے۔ قرآن خوانی کے بعد نعتیں پڑھنے کا مقابلہ تھا ( یہ بھی بعد میں اعلان کیا گیا) اور یہ سارا کام بھابی بیگم کی عدم موجودگی میں ہوتا رہا ' بھابی بیگم کافی دیر بعد تشریف لائیں۔ حلیہ ایسا تھا کہ راحیلہ بیگم کی ہنسی نکل گئی۔ وہ اس وقت کوئی بڑے ہی معتبر قسم کے پیر صاحب کا حلیہ دھارے ہوئے تھیں' ساری عورتیں احتراما کھڑی ہو گئیں' کوئی ان کے ہاتھ چومنے کی کوشش کررہی تھی اور جو زیادہ ہی جاہل تھیں قدم بوسی کر رہی تھیں' بھابی بیگم بڑے کروفر سے چلتی آئیں اور مسند پر براجمان ہو گئیں' سب عورتیں بیٹھ گئیں' ہرکوئی کچھ نہ لایا تھا' بھابی بیگم یہ مدرسے کے لیے' زبیده نے ایک لفافہ بھابی بیگم کے حوالے کیا جو کہ اچھا خاصا پھولا ہوا تھا۔
بھابی بیگم کے چہرے پر پڑی جاندار مسکراہٹ تھی۔ تگڑی رقم جو تھی۔ انہوں نے زبیدہ کے سر پر ہاتھ رکھا۔
" اللہ کی راہ میں دیا کبھی رائیگاں نہیں جاتا' ایک کے بدلے میں دس گنا ملتا ہے' یہ بچیاں آپ کی بھی بچیاں ہیں اور زبیدہ آپ نے ہمیشہ خیال کیا ہے آئندہ بھی کیجیے گا۔" زبیدہ اس قبولیت پر خوشی سے پاگل ہو گئی ڈائس پر رکھے ان کے ہاتھوں کو چوم لیا' دو لڑکیاں آگے بڑھیں' بھابی بیگم کی کلائیوں میں موتیے کی کلیوں کے گجرے پہنا دیے' ایک نے گلے میں سرخ گلابوں کا ہار ڈال دیا' پڑھی لکھی راحیلہ کو بہت عجیب سا لگ رہا تھا ' لیکن وہ خاموشی اختیار کیے بیٹھی رہیں۔ بھابی بیگم نے گفتگو کا آغاز کیا' ماحول میں خاموشی چھا گئی۔ وہ مدرسے کا تعارف کروا رہی تھیں لوگوں سے امدار جاری رکھے رہنے کا مطالبہ کررہی تھیں لوگوں کو زیادہ سے زیادہ دینی کام کرتے رہنے پر زور دے رہی تھیں۔ اخلاقیات کا درس' محبت اور اتفاق کی باتیں' خوش خلقی' نیک نیتی' دوسروں کے کام آنا' رٹی رٹائی باتیں دہرائی گئیں' پھر ایک اہم اعلان بھی کیا گیا کہ اس رمضان میں عورتوں کے لیے تراویح نماز کا اہتمام کیا گیا ہے' عورتوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ مدرسے کی چھت کھلی اور وسیع تھی' وہیں پر اہتمام کیا جا رہا تھا اور جو عورتیں سیڑھیاں نہیں چڑھ سکتی تھیں ان کے لیے نچلے ہال میں انتظام کیا گیا تھا۔ محفل اختتام کو پہنچی ' کھانے کے لیے سب کو اوپر بلایا گیا اور کھانا کھا کر جب وہ وہاں سے نکلی تو رات ہوچکی تھی۔ يقينا ماریہ کے اب آ چکے ہوں گے۔ راحیلہ سوچتی ہوئی سیڑھیاں اتر رہی تھیں ۔ زبیدہ اوپر ہی رک گئی تھی' جبکہ باقی عورتیں بھی ابھی وہیں براجمان تھیں' ماریہ کے ابا رات کے وقت عورتوں کا گھر سے نکلنا اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ راحیلہ کے ذہن میں اس وقت شاہدہ بیگم کی باتیں گڈ مڈ ہو رہی تھیں' وہ آخری سیڑھی پرتھیں جب ایک روتی آواز پر ٹھٹک گئیں۔ انہوں نے ادھ کھلے دروازے سے اندر جھانکا' یہ لڑکیوں کا رہائشی حصہ تھا ' اندر قطار میں لڑکیاں بیٹھی تھیں اور دو بڑی لڑکیاں انہیں کھانا دے رہی تھیں۔
" باجی میں سچ کہہ رہی ہوں میں نے کوئی بوٹی نہیں چرائی۔" ایک طرف
سے آواز آئی تھی۔ راحیلہ نے سر دروازے کے اندر گھسیڑ دیا۔ گیارہ بارہ سال کی بچی تھی۔ سفید دوپٹے میں مقید پریشان چہرا' اپنی صفائی دینے کی کوشش کررہی تھی۔
" جھوٹ مت بولو سونیا' مناہل نے خود تجھے دیکھا تو پتیلے میں سے بوٹیاں نکال کر کھا رہی تھی۔ بھابی بیگم نے سزا کے طور پر تمہیں آج رات بھوکا رکھنے کا حکم دیا ہے۔" ایک لڑکی نے کہا۔
" نہین باجی۔" وہ تڑپی۔ ۔ بھوک اس کے چہرے پر کلبلائی تھی۔ راحیلہ سے رہا نہیں گیا' بول پڑیں۔
" کھانا کیوں نہیں دے رہی تم بچی کو؟" دونوں لڑکیوں کے ساتھ باقی سب نے بھی مڑ کر دیکھا۔ لڑکیاں گھبرا گئیں۔ ایک دوسرے کو ٹہوکے دینے لگیں۔
کلبلاک تھی۔ راحیلہ سے رہا نہیں گیا بول پڑیں۔