SIZE
3 / 8

دو چار میلاد محلے میں ہوۓ لیکن شاہدہ بیگم کو اس کی نظامت اور نقابت پر شدید اعتراض ہوا اور آخر کار یہ کام بھی انہیں ہی سنبھالنا پڑا ۔ مدرسے کی دو بہترین نعت خواں شاہدہ بیگم المعروف بھابی بیگم نے اپنے ساتھ ملائیں' اب کہ کچھ اور تبدیلی آئی ' اب ان کے بیگ میں چند موٹی موٹی کتابیں سر گھسیڑے کھڑی ہو گئیں۔ بھابی بیگم نے ایسی ایسی کہانیاں یاد کر لیں جن کا مذہب سے تو کوئی تعلق تھا نہیں لیکن طرز بیان اس قدر رقت آمیز ہوتا کہ نوٹوں کی بوچھاڑ ہونے لگتی لہجہ جتنا پر سوز ہونا جا تا عورتیں زارو قطار روتی چلی جاتیں اتنی ہی عقیدت سے بھابی بیگم کے ہاتھوں پر بوسہ دیتیں اور سامنے دھری ٹیبل پر موجود پیالے میں حسب استطاعت روپے ڈالتی رہتیں' جیسے ہی پیالہ بھرنے لگتا ' ایک اشارے پر ساتھ موجود لڑکی اسے ایک شاپر میں الٹ لیتی تھی' پیالہ پھر سے بھرنے لگتا' بھابی بیگم نے ایک عدد مائیک اور لاؤڈ اسپیکرز کا بھی انتظام کر رکھا تھا جوان کی کہیں آمد سے قبل پہنچا دیے جاتے اور یوں سارا دن محفل جاری رہتی اور جو شریک نہ ہو پاتے وہ سن کر ہی دلی طمانیت حاصل کرتے۔ بیگم راحیلہ نے پہلی بار شاہدہ بیگم پرانگلی اٹھائی تھی۔ انہوں نے ان کے مائیک پر اونچی آواز سے نعتیں پڑھنے پراعتراض کیا تھا' بھابی نے تو آؤ دیکھا نا تاؤ برس پڑیں۔

" عورت کی آواز گھر سے نہ نکلے اس بات کا بھی پردہ ہے۔" راحیلہ نے ابرو چڑھائے' محفل میں موجود ساری عورتوں نے راحیلہ کو اسں بے ادبی پر گھورا۔ بھابی بیگم کے علم پر کھلا حملہ۔

" ہم اللہ کا کلام پڑھتے ہیں اور یہ نعتیہ اشعار ہیں دل کی بصیرت کے لیے اور مائیک میں پڑھنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ جو بہنیں اس محفل میں شریک نہیں ہو سکتیں کسی وجہ سے ان کے کانوں تک بھی یہ پاک الفاظ پہنچیں۔"

بھابی بیگم کا غصہ ساتویں آسمان پر تھا' کون ان پر انگلی اٹھانے کی جرات کرے اور کرے تو کرے کیسے؟

" یہ آوازیں سڑک سے گزرنے والے اور گھروں میں بیٹھے ہوۓ مردوں کے کانوں میں بھی پڑتی ہیں۔ آپ دین کا پیغام پہنچا رہی ہیں یا لوگوں کو گمراہ کررہی ہیں؟ راحیلہ ایم اے اسلامیات تھیں ' عالمہ فاضلہ کا چار سال کا کورس بھی کر رکھا تھا ' ترجمہ و تفسیر پڑھی تھیں اور سامنے بیٹھی دین سے قطعی نا بلد دینی مبشر بنیبیٹھی عورت تھی۔ جتنا عرصہ انہیں اس محلے میں آۓ ہوۓ

ہوا تھا انہوں نے شاہده بیگم کی بس تعریف ہی سنی تھی۔ محلے کی لڑکیوں اور بچیوں کو نیک کاموں کی طرف راغب کرنا بھابی بیگم کا ہی کام تھا اور بھابی بیگم کے ذمہ ایک کام تھوڑی تھا' درس میں سبق دینا' محفل میلاد منعقد کروانا' کسی کے گھر بچے کی ولادت ہوتی اسے گھٹی دینا' کوئی مر گیا اس کے لیے دعائے خصوصی کے لیے بھابی بیگم کا آنا لازم اور بھابی بیگم پیغام در پیغام بھجوانے کے باوجود اس وقت تشریف لاتیں جب بس جنازہ اٹھنے ہی والا ہوتا۔ کسی کی بسم اللہ تو کسی کی آمین' بھابی بیگم لازم وملزوم اور تو اور کوئی بیمار ہو جاتا تو دم کروانے بھی بھابی کے دوار جا پہنچتا' کسی کے اولاد نہیں بھابی تعویذ دیں گی' بندہ پوچھے تھے جب بھابی اپنی خالی کوکھ کے لیے کچھ نہ کرسکیں تو کسی اور کے لیے کیا کریں گی؟ اور تو اور جادو ٹونے کا توڑ بھی بھابی بیگم ہی کررہی تھیں' یعنی ایک بھابی بیگم اور سارے جہاں کام غم ان کے نازک کندھوں پر۔

زبیده نے ہاتھ دبا کر راحیل کو چپ رہنے کا مشورہ دیا لیکن وہ اسے یوں کھلم کھلا لوگوں کو گمراہ کرتے نہیں دیکھ سکتی تھیں' وہ بہت سی اصل باتوں کو توڑ مروڑ کر پیش کرتی تھیں اور لوگوں کا حال یہ تھا کہ بنا تحقیق کے آنکھیں بند کر کے نہ صرف یقین کرتے بلکہ آ منا وصدقتا بھی کہتے اور اگر کوئی بھابی بیگم کے علم کو چیلنج کرنے کی کوشش کرتا تو لوگ اسے وہابی اور جانے کیا کیا مشہور کر ڈالتے اور اس کے در پردہ بھابی بیگم تھیں ' لوگ ان کی عقیدت واحترام میں حد سے گزر گئے تھے اور بھابی بیگم کا غرور بھی حد سے سوا ہوتا جا رہا تھا۔

رمضان شریف کی آمد آمد تھی' بھابی بیگم اپنے نئے مدرسے کو سجانے سنوارنے میں مگن تھیں' محلے کے صاحب حیثیت رانا صاحب کالونی میں شفٹ ہوئے تو اپنا پرانا مکان مدرسے کے لیے وقف کر گئے۔ بھابی بیگم نے فورا سے پہلے اس کو گرا کر نئی تعمیر شروع کروائی' نیچے ہاسٹل نما کمرے بنوائے اور فرسٹ فلور پرلمبا ہال' جبکہ تیسری منزل انہوں نے اپنی رہائش کے لیے مختص کی۔ اس تیسری منزل پر کسی کو جانے کی اجازت نہیں تھی۔ مخیر حضرات نے دل کھول کر چندہ دیا اور دو مہینے میں مدرسے کی شاندار عمارت تیار تھی۔اب یہاں دوسرے شہر کی بچیوں کو بھی داخلہ دیا گیا کہ بھابی بیگم کے چرچے دور دور تک پھیل چکے تھے۔