پہنچاتی رہی ....... اور یوں راحیلہ پوری طرح زبیدہ کی گرویدہ ہو گئی۔
شاہدہ دلہن بن کر صبغت اللہ کے گھر آ گئی مدرسے کی ساری لڑکیوں نے شادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا' کچھ نے تو حسب استطاعت آنے والی بھابی جان کے لیے تحائف بھی خریدے تھے۔ ہفتہ دس دن گزرے ' ایک دن بھائی جان مدرسے کے معائنے کے لیے تشریف لے آئیں۔ صبغت اللہ نے انہیں اپنے مشن کے بارے میں ساری معلومات دی تھیں ۔ مدرسے میں انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا' ٹھنڈی بوتل اور بعد میں چائے لوازمات کے ساتھ پیش کی گئی۔ بھائی جان مسند پر براجمان تمام استانیوں کا جائزہ لیتی رہیں اور کھانے سے شغل کرتی رہیں' شام گئے جب وہ اٹھیں تو انہوں نے دو استانیوں کو فارغ کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا اور خود کلاس کی اصلاح کا ارادہ کرلیا تھا۔ قاری صبغت اللہ نے جب ان کے دورے کے متعلق پوچھا تو انہوں نے برا سا منہ بنایا۔
" کچھ خاص نہیں رہا............. بہت خامیاں ہیں مدرسے کے ماحول میں۔"
" ہیں؟" صبغت الله چونکے' پچھلے پانچ سالوں میں انہوں نے ہر ممکن کوشش کر کے مدرسے کے ماحول میں بہتری لانے کی کوشش کی تھی اور بیگم صاحبہ نے بیک جنبش قلم انہیں مسترد کر دیا تھا۔
" شاہدہ بیگم میں سمجھا نہیں ۔ " وہ اپنا کام چھوڑ کر بیگم کے روبرو آ بیٹھے۔
" میں مطمئن نہیں ہوئی قاری صاحب۔" انہوں نے اپنے مہندی رنگے ہاتھ بڑے مدبرانہ انداز میں اٹھائے۔
" ہم ایک بہت بڑی ذمہ داری نبھا رہے ہیں ' ہمیں اس میں سرخرو ہونا چاہیے تا کہ ہم نا اہل اساتذہ کے ذریعے ایک نا فہم پود تیار کریں۔
" اللہ۔۔۔۔ اللہ‘ قاری صاحب اپنی پرائمری پاس اہلیہ کی مدبرانہ گفتگو پہ اش اش کر اٹھے۔ شاہدہ بیگم اتنی عقل مند نکلیں گی انہیں اندازہ ہی نہ تھا۔
" میں نے کچھ ٹیچرز کو فارغ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے' اور دوسرا اگر آپ اجازت دیں تو میں بھی اس نیک کام میں آپ کے شانہ بشانہ چلنے کی خواہش رکھتی ہوں۔" انہوں نے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو صبغت اللہ کھل اٹھے۔ چچا امجد نے ان کے لیے ایک صحیح لڑکی کا انتخاب کیا تھاجو ان کے مشن میں ہم قدم ہونے کے لیے برضا و رغبت تیار تھی۔ انہوں نے بیگم کا خیر مقدم کیا اور انہیں مدرسہ کی گونا گوں ذمہ داریاں سونپ دیں۔ شاہدہ بیگم کا سر احساس تفاخر سے بلند ہو گیا تھا۔
بہت سی باتیں پھیلی' آوازیں اٹھیں' جب شاہدہ بیگم نے پہلے باجی رضیہ اور پھر ساجدہ کو مدرسے سے فارغ کیا' یہ دونوں پرانی ٹیچرز تھیں اور اول روز سے یہاں اپنی خدمات انجا م دے رہی تھیں' جبکہ باجی نغمہ باجی زاہدہاور باجی کوثر یہیں سے فارغ ہو کر یہیں پڑھانے لگی تھیں۔( مدرسوں میں قرآن پاک پڑھانے والی ٹیچرز کو باجی کہہ کر بلایا جاتا ہے) پہلے دن سے ہی سخت قوانین لاگو کیے' جن میں بڑی لڑکیوں کا عبایا پہن کر آنا لازم قرار دیا اور چھوٹی بچیوں کا دوپٹے سے خود کو اچھی طرح لپیٹ کر آنا ضروری تھا۔ خود بھابی بیگم کا حلیہ یکسر بدل گیا تھا۔
سر پر اسکارف جو بوقت ضرورت حجاب کی ضرورت پوری کرتا۔ ایک کھلا چوغہ' ہاتھ میں بیگ اور کچھ کتابیں 'جن میں اسلام کے متعلق کچھ مستند کچھ غیر مستند مواد موجود تھا۔ انکھوں پر ایک بڑے سائز کے براؤن چشمے نے قبضہ' ہلکا میک اپ اور دونوں ہاتھوں پر مہندی رچی ہوئی' وه مہندی کا رنگ پھیکا نہ پڑنے دیتیں' ہونٹوں پر دنداسے کا رنگ اور صرف ان کے حلیے میں ہی فرق نہ آیا بلکہ پورے محلہ کا ماحول رفتہ رفتہ بدلنے لگا' شاہدہ بیگم ہر گھر میں گئیں اور لوگوں کو مجبور کیا کہ وہ میلاد کمیٹی میں حصہ ڈالیں۔ ہر مہینہ ایک کمیٹی نکالی جائے گی اور جس کی کمیٹی نکلے گی' وہ اپنے گھر میں محفل میلا د کا انتظام کیا کرے گا اور اچھا کھانا نیاز کے طور پر سب گھروں اور بالخصوص غریبوں میں بانٹے گا۔
دو سو روپے ماہوار پر کمیٹی کا اجرا کیا گیا' شاہدہ بیگم کی پہچان ایک دینی مذہبی اور سچی عاشق رسولﷺ کی حیثیت سے ہونے لگی 'دو سو روپے ماہوار میں کون کافر تھا جو محفل میلاد میں حصہ ڈالنے سے ہاتھ کھینچتا۔ چند مہینوں میں ہی بھابی بیگم کے چرچے ہونے لگے۔ نمازی ' پرہیزی متقی کون سی خوبیاں تھیں جو شاہدہ بیگم میں لوگوں کو نظر نہیں آنے لگی۔