SIZE
1 / 8

مولوی صبغت اللہ نے بڑی نیک نیتی سے مدرسے کی بنیاد رکھی تھی۔ محلے کی بچیوں کو یا تو نہر پار کر کے مدرسے میں قرآن کی تعلیم حاصل کرنے جانا پڑتا تھا یا پھر پرانے دستور ابھی بھی قائم تھے۔ گھر کی کوئی دادی نانی یا پھر ایک قرآن پاک پڑھنانے والی اماں تو چند رپوں کے عوض گھر گھر جا کر بچوں کو قرآن پاک پڑھاتی تھیں لیکن اس میں سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ نہ تو ان عورتوں کا تلفظ تها اور نہ ہی وہ قرآن کو تجوید سے پڑھنے کا علم رکھتی تھیں' زیر' زبر پیش کی غلطیوں کو وہ معمولی گردانتی اور کوئی غور بھی نہیں کرتا تھا' ایسے میں امام صاحب اور صبغت اللہ نے محلے کے دیگر ارکان سے مشورے کے بعد مسجد کے ساتھ ہی ایک ملحقہ گھر لے لیا اور اسے مدرسے کی شکل دے دی گئی۔ مفت تعلیم کے لیے ان کو گھر گھر جا کر لوگوں کو راضی کرنا پڑا۔ یوں ایک ماہ میں کم وبیش پندرہ بچیاں درس میں آنے لگیں۔ بچوں کے لیے دو استانیوں کا انتظام کیا گیا تھا جو قرآن کے حرف ونجو سے پوری طرح واقف نہ سہی لیکن ان ماؤں سے بہت بہتر تھیں' چند ہی ماہ میں مدرسہ چل نکلا اور بچوں کی تعداد بڑھ کر پچاس ہوگئی' مدرسے کے لیے مخیر

حضرات بھی چندہ دینے لگے' یوں مدرسے میں ائیر کولر اور پنکھوں کا انتظام بھی ہو گیا۔ رفتہ رفتہ یہاں بڑی لڑکیاں بھی آنے لگیں' جو پہلے قرآن پاک ختم تو کر چکی تھیں لیکن تجوید کے ساتھ پڑھنے کے فن سے نا آشنا تھیں' ماحول اچھا تھا اور پھر مولوی صبغت الله جوان ہونے کے باوجود

شرافت کا پیکر تھے' ہمیشہ نظریں نیچی رکھ کر بات کرتے تھے وہ بھی جب ضرورت ہوتی' ورنہ بلاوجہ انہوں نے کبھی پڑھائی کے اوقات میں مدرسے آنے کی کوشش نہ کی تھی' لڑکیاں انہیں بھائی جان کہہ کر بلاتی تھیں اور بشمول سب استانیاں ان کی بے حد عزت کرتی تھیں۔

صبغت اللہ تنہا تھے' ماں باپ کا انتقال بچپن میں ہو گیا تھا اور انہیں ان کے ایک رشتہ دار نے پالا تھا' اور وہ اسی رشتہ دار کو اپنا سب کچھ مانتے تھے۔ ان کی بیٹیوں کو وہ ہمیشہ اپنی سگی بہنہیں سمجھتے تھے' چھبیس سال کے ہونے کو آۓ تھے' چچا امجد نے بیوی سے کہہ کر صبغت اللہ کے لیے بر ڈھونڈنے کی مہم شروع کر دی تھی اور جلد ہی انہیں مطلوبہ رشتہ مل گیا تھا۔

شاہدہ پرائمری پاس تھی قرآن پاک پڑھا تھا اور گھریلو کاموں میں طاق تھی۔ چار بھائیوں اور پانچ بہنوں میںتیسرے نمبر پر تھی۔ شکل صورت واجبی تھی (صبغت اللہ خوبرو نوجوان تھے) لیکن پہن اوڑھ کر بھلی لگتی تھی پھر عمر بھی ایسی تھی ' دونوں گھرانوں نے ایک دوسرے کو دیکھا بھالا' پرکھا اور یوں رشتہ پکا ہو گیا۔ چچا امجد نے جلد ہی شادی کا ارادہ بھی ظاہر کر دیا۔۔۔۔۔ وہ اپنے فرض سے عہدہ برآ ہونا چاہتے تھے۔

انہوں نے صبغت اللہ سے کہہ دیا تھا کہ وہ جلد از جلد اپنی رہائش کا الگ بندوبست کر لیں کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ صبغت اللہ کی بیوی کے گھر آ جانے سے ساس بہو والا روایتی جھگڑا شروع ہو جائے ۔ صبغت اللہ نے ان کی بات سمجھ لی اور جلد ہی ایک کمرہ کرائے پر حاصل کر لیا تھا۔ مدرسے میں بچیوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی تھی اور صبغت اللہ سوچ رہے تھے کہ ترجمے اور تفسیر کی کلاس بھی شروع کر دی جائے' انہوں نے امام مسجد سے مشورہ کیا اور انہوں نے رضامندی دے دی تھی۔

ٹرک سے بھرا سامان گلی میں کیا رکا کئی گھروں کے دروازے کھڑکیاں کھل گئیں۔ جو مکان کئی دنوں سے خالی تھا اور جس پر گزشتہ دنوں رنگ روغن کرایا گیا تھا وہاں رہنے والے آن پہنچے تھے۔ سب سے پہلے چوہدریوں کی زبیده سن گن لینے پہنچی تھی۔ ٹرک کے ساتھ ایک گاڑی بھی تھی جس میں دو لڑکیاں اور مرد اور عورت بھی تھے۔ زبیدہ نے دبنگ انٹری دی اور ٹھنڈی بوتل اور گلاس لے کر پہنچ گئی۔۔۔۔ سلام دعا کے بعد پندرہ منٹ کے اندر اندر وہ ساری خبر لے چکی تھی آنے والے کون تھے؟ کہاں سے آئے تھے گھر خریدا تھا یا کرائے پرليا تها' کتنے بچے' کس محکمے کی ملازمت' رشته دار کہاں کہاں اور جب تک انہوں نے زبیدہ کی خوش اخلاقی کا معترف ہوتے ہوئے مشروب سے بھرے گلاس خالی کیے تب تک زبیدہ نے پوری طرح جان لیا تھا راحیلہ سے اس کی گاڑھی چھننے والی تھی۔

فواد رانا کالج میں پروفیسرتھا اور اس کی بیوی اسکول میں ٹیچرتھی ۔ دونوں لڑکیاں کالج میں زیرتعلیم تھیں۔ زبیدہ نے اگلے کئی دن تک ان کے گھر آنا جانا رکھا۔ نہ صرف سامان سیٹ کرنے میں مدد کی بلکہ کھانا' چائے بھی