" وہ جی۔۔۔۔۔" ایک آگے بڑھی' اور رک رک کر بتانے لگی۔
" ہمیں تو گن کر روٹیاں اور بوٹیاں دی جاتی ہیں' اس نے پہلے چوری کرکے کھا لی۔ اب میں کہاں سے دوں' یہ ویسے ہی ندیدی ہے' دال سبزی کے نزدیک نہیں جاتی' جس دن گوشت پک جائے اس کی بھوک بڑھ جاتی ہے۔ دو روٹیاں دو بوٹیاں۔۔۔۔" یہ غالبا زبیدہ کی بیٹی تھی 'جو خود بھی زیر تعلیم تھی اور بیوی بچوں اور چھوٹی بچیوں کو نورانی قاعدہ بھی بھی پڑھاتی تھیں۔
" لیکن بیٹا' بھوک تو بھوک ہے اس کا گنتی سے کیا تعلق؟" راحلیہ کا دماغ بھک سے اڑ گیا تھا' کیا بھوک گنی جا سکتی ہے۔ ایک روٹی' ایک بوٹی۔
" بس جی یہ مدرسے کے قوانین ہیں' بھابی بیگم کہتی ہیں زیادہ کھانا کھانے سے دماغ پر چربی چڑھتی ہے' دن میں بس دو بار کھانا چاہیے۔" وہ معلومات بہم پہنچا رہی تھی۔
" ارے تم ابھی تک یہیں کھڑی ہو۔" زبیدہ پیچھے آئی تھی۔
" ہاں.....وہ یہ۔۔۔۔۔" اسے سمجھ نہ آیا وہ کیا بتاۓ وہ ۔ بھی تو جانتی ہوگی ' اس کی بیٹی کو اتنا کچھ معلوم ہے تو گھر بھی بتایا ہوگا۔ وہ خاموشی سے زبیدہ کے ہمراہ ہوئی۔ رات بھر اس کے زہن میں ایک روٹی اور ایک بوٹی گھومتی رہی تھی۔
رمضان کی مصروفیات الگ ہی تھیں۔ افطاری کے بعد ہی سب گھروں سے جہاں مرد تراویح کے لیے نکلتے وہیں عورتیں بھی نکل آتی تھیں۔ صاف ستھری' نکھری رنگ برنگے ملبوسات ' ہکا میک اپ' مدرسے کی چھت پر گویا بہار ہی آ جاتی تھی۔ تراویح نماز کے بعد بھابی بیگم کا وعظ بقول ان کے رب کی ساری رحمتوں کا نزول اسی محلے پر ہو رہا تھا۔ زبیدہ نے راحیلہ کو بھی چلنے کے لیے کہا تھا لیکن چار دن کے بعد اس کا دل اوب سا گیا تھا۔ بناوٹ اور تصنع سے بھر پور ماحول جو دینی کم اور دنیاوی مجمع زیادہ محسوس ہوتا تھا' رنگ برنگے کپڑے' جوتے' ہیئر اسٹائل۔ راحیلہ کی تو عقل ہی ماؤف ہوجاتی تھی۔ اس روز زبیده آ گئی۔
" اتنا مزہ آتا ہے مل کر تراویح پڑھنے میں ۔ بڑا ہی پرنور ماحول ہوتا ہے اور پھر بھابی جی کی باتیں' اتنے پیار سے سمجھاتی ہیں۔ اب دیکھو کل انہوں نے کیا پتے کی بات بتائی ہم تو انجان ہی تھے۔ نیک لوگوں کی محفل میں بیٹھو تو پتہ چلتا ہے ہم تو ناقص العقل' ناقص العلم ۔۔۔۔۔" اس نے دوپٹہ کانوں کے پیچھے اڑسا۔
" کیا بتا دیا کچھ ہمیں بھی تو پتہ چلے؟" راحیلہ نے تسبیح سائیڈ پر رکھتے ہوئے پوچھا۔ زبیدہ بہت بڑی عقیدت مند تھی۔ پور پور نیاز مندی میں ڈوبی ہوئی۔
" انہوں نے بتایا کہ جب تک لڑکی آ نکھوں میں سرمہ اور ہاتھوں میں مہندی نہ لگاۓ' اس کی نماز نہیں ہوتی' جوان لڑکی کو ہر وقت سرمہ اور مہندی لگائے رکھنا چاہیے۔"
" استغفراللہ۔۔۔۔۔" راحیلہ کا دماغ بھک سے اڑ گیا۔ "کہاں' کس کتاب میں لکھا ہے یہ سب؟ لاحول ولا۔۔۔۔ کیسی کیسی باتیں پھیلا رہی ہیں بھائی بیگم' کیا لڑکیوں کا بناؤ سنگھار نمازوں کی مقبولیت کا سبب ہے' کیسی کیسی بدعتیں عام کردی ہیں اور آپ سب لوگ آنکھیں بند کر کے ان کے پیچھے چل رہی ہیں۔ اللہ' رسول' قرآن ایک طرف اور بھابی کا فرمان ایک طرف 'نعوذ باللہ' کہاں چلی گئی آپ لوگوں کی عقل' کبھی آپ لوگوں نے ان کا کہا پرکھا بھی ہے؟ جو تفسير' جو واقعات وہ آپ کو سناتی ہیں اور آپ سب روتی ہیں ان کے ہاتھ چومتی ہیں' ان کو عقیدت کی سب سے اونچی مسند پر بٹھا دیتی ہیں' کبھی قرآن کھول کر دیکھا بھی ہے کہ کیا وہ سچ کہہ رہی ہیں یا بہتان باندھ رہی ہیں' ایک پانچ جماعت پڑھی عورت آپ کو دین کام دے رہی ہیں جس سے وہ یکسر نابلد ہے اور آپ لوگ آنکھیں بند کر کے اس کے پیچھے چل پڑی ہیں۔ دنیا اور آخرت کیوں آگ میں جھونک رہی ہیں آپ؟“ راحیلہ بیگم کو تو غصہ ہی آ گیا اسی بے سروپا بات سن کر' زبیدہ بیگم پر راحیلہ کی تقریر کا اثر ہوا کہ نہیں البتہ سب سن کر خاموشی سے اٹھ کر چلی گئیں۔