" مدیحہ بیٹا تم دوپہر میں چلنا میرے ساتھ رضیہ آپا کے گھر' تمہیں سلائی سیکھنی ہے خیر سے اب تمہارا بیاہ بھی کرنا ہے۔“ سوچی سمجھی پلاننگ کے تحت ساس صاحبہ نے نادیہ کے سامنے مدیحہ سے کہا۔ سلائی سینٹر جانے کا مقصد ہی صرف یہی تھا کہ مدیحہ بادیہ کی مدد نہ کر سکے اور ماجد کے سامنے بہانہ بھی بن جائے کہ وہ بے چاری گھرپر ہوتی ہی کب ہے۔ رہ گئی ساس تو وہ کہاں اس عمر میں کام کریں گی۔
" جی امی جیسے آپ کہیں۔" مدیحہ نے مسکراتے ہوۓ نادیہ کو دیکھا' جیسے کہ اس کی بے بسی پر ہنس رہی ہو اور وہ تو بے چاری اتنا بھی نہیں کہہ سکتی تھی کہ امی ابھی کچھ عرصے رک جائیں۔ اب مدیحہ ہر وقت اپنی سلائی کے کاموں میں مصروف رہتی اورنادیہ گھر کے کاموں میں' کپڑے دھوتی تو تھوڑے تھوڑے کپڑے بالٹی میں بھر کے اوپر پہنچا آتی' کسی کو ترس نہ آتا کہ وزن اٹھانے سے ڈاکٹر نے منع کیا ہے۔ ڈھیروں برتن دھوتی' جب کچن میں جاتی برتن منہ چڑا رہے ہوتے۔ نند یا ساس کو اتنی توفیق نہ ہوتی کہ کم از کم برتن دھو کر رکھ دیں۔
دوپہر کو الگ ہنڈیا یا رات کو الگ باسی سالن یا روٹی کسی کو کھانے کی عادت نہیں تھی۔ مجو گھر آتا تو نڈھال نڈھال سی نادیہ کو دیکھ کے تھوڑا پریشان ہوجاتا' اکثر وہ الٹیاں کر کر کے نڈھال ہو جاتی تو ساس بڑی ہی بے فکری سے کہتیں۔
" بھئی الٹیاں تو ایسے میں ہو ہی جاتی ہیں مجھے تو پورے نو مہینے تک ہوتی تھیں مگر مجال ہے جو گھر کا کام رکا ہو۔" اور وہ بے چاری پھر سے کام میں جت جاتی - اس روز گھر پر کوئی نہ تھا ' مدیحہ سینٹر گئی ہوئی تھی تو ساس صاحبہ اپنی کسی سہیلی کے گھر حال احوال پوچھنے کی غرض سے روانہ ہوگئی تھیں۔ نادیہ کو بڑی دیر سے چکر آ رہے تھے اس نے بڑی مشکل سے لیموں پانی بنایا تھا مگر یہ اس کی خراب قسمت تھی کہ اس سے پہلے کہ وہ کلاس منہ سے لگاتی ایک زور دار چکر اسے زمین بوس کر گیا تھا اور گلاس کی کرچیاں پورے کچن میں بھر گئی تھیں۔ اسے ہوش آیا تو اس نے خود کو ہسپتال میں پایا ' اس نے آنکھیں کھولیں تو ماجد اس کے برابر بیٹھا تھا اس نے حیران ہو کر ماجد کو دیکھا۔
" گھبراو مت تمہیں چکر آ گئے تھے وہ تو اچھا ہوا کہ میں کسی ضروری کام سے گھر آ گیا تھا اور چابی بھی میرے پاس تھی ورنہ تو آج نجانے کیا ہو جاتا۔ تم نے اماں کو جانے کیوں دیا؟“ ماجد اس کے لیے فکر مند تھا ' نادیہ کا دل پُر سکون ہوا۔ " اب یہ ٹھیک ہیں لیکن آپ کو ان کا دھیان رکھنا ہوگا ' یہ بہت کمزور ہیں ان کی خوراک کا خیال رکھیں' کچھ دن انہیں ریسٹ کرنے دیں اور ہلکا پھلکا کام کرائیں۔ یہ نہیں کہ سب کام ان پر لاد دیں' اسی وجہ سے ان کا یہ حال ہوا ہے آپ بات سمجھیں' بچے پر اثر پڑے گا۔" ڈاکٹر نے رسانیت سے ماجد کو سمجھایا' وہ خود کافی ٹائم سے دیکھ رہا تھا کہ نادیہ ایسی حالت میں سارا کام خود کر رہی ہے مگر اماں سے کچھ کہنے کی اس کی ہمت نہ تھی مگر اب سوال اس کے بچے کی صحت و سلامتی کا تھا وہ گھر آیا تھا تو اماں پہلے سے تنی بیٹھی تھیں۔
" ارے او مجو................ باؤلا ہوگیا ہے کیا ایسی حالت میں بہو کو لے کر کہاں چلا گیا تھا میرے آ نے کا انتظار تو کیا ہوتا اور بہو سارا گھر ایسے ہی گندا چھوڑ کے تم گھومنے چلی گئیں۔ " ماں نے بہو بیٹے کو گھورا۔