SIZE
2 / 5

یا کبھی جو وہ میکے جانے کا سوچتی تو ساس صاحب پپ

" بیوی ا پنے گھر میں شوہر کی دیکھ بھال کرتی اچھی لگتی ہے نہ کہ میکے میں سیر سپاٹے کرتی اور جو بیویاں اپنے شوہروں کو چھوڑ کے میکے جا بیٹھتی ہیں ان کے شوہر بھی کہیں اور ہی دل لگی کا سامان تلاش کرتے ہیں۔" ساس کی منطق کے آگے وہ چپ ہو جاتی پھر بھی میکے جانے کا نام نہ لیتی اور جو اس کی ماں اور بہنیں اس سے ملنے آجاتیں تو ساس اور نند انہیں اس کے پاس کبھی اکیلا ہی نہ چھوڑتیں جو وہ کوئی حال دل کہہ سکے ہاں اتنا ضرور سوچتی تھی کہ اس کی شادی شدہ نندیں کیوں ہر دوسرے دن میکے میں دکھائی دیتی ہیں۔ انہیں کیوں ساس منع نہیں کرتیں اور ان سوالوں کا صرف ایک ہی جواب تھا کہ وہ بہو تھی اور وہ بیٹیاں۔

اس روز نادیہ نے مشین لگائی ہوئی تھی صبح سے وہ کوئی درجن بھر سے زائد کپڑے دھو کے ہلکان ہو چکی تھی۔ آگ اگلتا سورج' صحن میں کپڑے دھوتی نادیہ پر مسلسل اپنا قہر برسا رہا تھا اور وہ پسینے میں شرابور اپنی خراب قسمت کو کوس رہی تھی۔ ابھی وہ کپڑے پھیلانے کھڑی ہی ہوئی تھی کہ اسے منہ بھر کے قے آئی اور وہ فورآ واش روم بھاگی تھی' ساس صاحبہ کو اس کے انداز ذرا کھٹکے تھے۔ وہ فورا نادیہ کو لیڈی ڈاکٹر کے پاس لے گئی اور جو خوش خبری ڈاکٹر نے سنائی تو وہ نہال ہو گئی تھیں ۔ نانی بننے کے بعد دادی بننے کی خوشی کسی اعزاز سے کم نہیں تھی۔ شام تک یہ خبر اس کی تمام نندوں تک پہنچ چکی تھی سو وہ بچوں سمیت میکے میں آن دھمکی تھیں۔ شام کو مجوگھر آیا تو شرمائی لجائی سی نادیہ اسے بہت بھائی تھی۔ باپ بننا اس کے لیے کسی خوشی نصیبی سے کم نہ ' آج تو چھوٹی نند صاحبہ بھی کچن میں نادیہ کی مدد کروا رہی تھیں۔ ظاہر ہے ایسی حالت میں اتنی بڑی پلٹن کی اکیلے خاطر تواضع اس کے لیے کس قدر بھی نا مناسب نہ تھا۔ ساس صاحبہ تینوں شادی شد ہ نندوں کے ساتھ بند کمرے میں گول میز کانفرس میں مصروف تھیں اور بچے شرارتیں کرتے نادیہ کی

جان ہلکان کیے رکھتے تھے۔ نادیہ ہمیشہ یہی سوچتی تھی کہ آخر بند کمرے میں یہ لوگ کیا راز و نیاز کی باتیں کرتی رہتی ہیں۔

" بات تو خوشی کی ہے مگر سر پر مت چڑھا لیے گا اپنی بہو کو' یہ نہ ہو کہ مہارانی بنا لیں آپ اور پھر آپ کے اپنے قابو ہی نہ آۓ۔" نادیہ کی سب سے بڑی نند عالیہ نے گول گول آنکھیں گھمائیں۔

" اور کیا امی آپ تو ہیں ہی معصوم' ارے ایک مہینہ لگا ہے بھابی کو دبا کے رکھنے میں ۔اب پوتے کی خوشی میں ساری محنت نہ برباد کر دیجیے گایہ نہ ہو کہ بھائی جورو کے غلام بن جائیں۔ بھئی ہم نے بھی تو بچے پیدا کیے ہیں کیا ہم نے گھر کے کام نہیں کیے۔ آپ نے تو پہلے ہی دن بے چاری مدیحہ کی ڈیوٹی بھابی کے ساتھ کچن میں لگا دی' حد کرتی ہیں آپ۔" عالیہ سے چھوٹی نجمہ نے اماں کو گھورا۔

" کہتی تو تم ٹھیک ہواب دیکھنا کیسی لگام کس کے رکھتی ہوں۔ ساس صاحبہ کی آنکھوں میں بڑی کمینی چمک آئی اور پھر تینوں بہنوں کا بڑا ہی بے ہنگم قہقہہ فضا میں گونجا تھا۔

بیٹیوں کے کہنے میں آ کے ساس صاحبہ نے اگلے دن سے ہی ماتھے پر آنکھیں رکھ لی تھیں سارا کام اکیلی نادیہ کے سپرد کردیا تھا اور وہ بے چاری حیران پریشان سی کھڑی سوچتی رہ گئی کہ کل تک تو ساس نے مدیحہ کو اس

کے ساتھ کر ہر کام کرنے کو کہا تھا پھر ایسا کیا ہوگیا جا آنکھیں بدل گئیں۔