کہیں زیادہ اچھی گفتگو بھی کی۔ تب ہی وہ اپنے کمرے سے باہر آئی تھی۔
اچھی خاصی فریش اور تازہ دم مگر اچانک یہ سوچ کی لہر کیوں چہرے پرآ کر اس کی مسکراہٹ ڈبو دیتی تھی۔
بچوں کے آنے کا وقت ہوا کافی تمیزدار بچے تھے۔ سلام کیا ان کے چھوٹے چھوٹے سوالوں کے جواب دیے۔ لنچ ساتھ کیا۔ لاؤنج سے ڈائننگ ہال اور ڈائننگ ہال سے سٹنگ ایریا میں بیٹھ کر چاۓ پینے تک سب خیر تھی۔ سب ٹھیک تھا بلکہ ضرورت سے زیادہ اچھا تھا۔
لینڈ لائن فون کی بیل ہوئی عاشر نے مہر سے کہا۔
"تمہاری دوست کا فون ہے بات کر لو رات سے کال کر رہی ہے." وہ اٹھی کچھ منٹ بات کی۔ پھر آ کر اپنی کرسی پر بیٹھ گئی۔ بچے آۓ ماں کے گال پر پیار کیا پاپا کے ساتھ چمٹ گئے یہ کچھ منوانے کی ادا تھی۔
وہ مسکرایا اس کی مسکراہٹ پر صاف لکھا تھا وہ شرارت سے نفی میں سر ہلا رہا تھا پھر مصنوعی انکار اس ساری کاروائی میں وہ مسکراتے رہے تھے۔ کتنی مکمل ' خوش حال' خوش مزاج فیملی تھی۔
مگر اس کے چہرے پہ آتی کیفیت کی لہر جس سے نڈھال ہوتے بالوں کی لٹ وہ بیزاری سے کان کے پیچھے اڑستی تھی۔
اسی وقت عاشر اٹھا کسی ملازم سے معمولی بات کی تکرار کے بعد عاشر نے اسے پیسے دیے مہر مسلسل اسی کی طرف متوجہ تھی۔
عاشر بہت ٹھیک موڈ میں کمرے کی طرف چلا گیا۔ مہر پھر تسلی سے ان کی طرف متوجہ ہوئی۔
بچے پاپا کی اجازت سے کہیں گھومنے نکل گئے۔
مہر نے ملازمہ کو بلا کر صاحب کا پوچھا اس نے بتایا کہ وہ کسی ضروری میٹنگ میں جارہے تھے۔
انہیں لگا بیٹھنے کا اب کوئی جواز نہیں۔
وہ اجازت لے کر اٹھ کھڑے ہوئے مگر ان میں ایک نکتہ اپنے پورے سوال کے قد کے ساتھ کھڑا تھا۔
اور دوسری طرف وہ لہر تھی جو چہرے کی مسکراہٹ میں خاموشیاں بھر دیتی ہے۔
اس سے پہلے کہ دوپہر شام میں بدلتی ان کو کلینک پہنچنا ہوتا کیونکہ مریضوں کی لمبی قظار ان کا انتظار کرتی تھی۔
شہر کے بہت بڑے ماہر نفسیات میں ان کا شمار تھا۔ کسی کی کہاوت یاد آئی۔
"نفسیات کو سمجھنے سے پہلے خود نفسیاتی ہونا پڑتا ہے۔"اس لیے کسی بھی نفسیات دان کا نفسیاتی لگنا تعجب کی بات نہیں ۔ پچھلی رات سے وہ کئی بار مہر کی پچھلی زندگی کے بارے میں سوچتے رہے۔ وہ پہلے سے بہت اچھے حالوں میں تھی۔