SIZE
2 / 5

ادھوری ٹوٹی پھوٹی بکھری کیفیت لیے ہوئے باہر آتا اور دوائیوں کا نسخہ لیے گزر جاتا۔ نام پکارا جانے لگا۔ کہانی سنانے کی باری اب اس کی تھی۔

وہ اس کا پرانا جانے والا تھا اس کے ابا کا پرانا دوست گو کی شکل دیکھے ایک عرصہ ہوا تھا مگر یاداشت نے سگنل دیا تو شناسائی نے احساس دلایا وہ مسکرائے تو اس کے چہرے پر بھی ایسی مسکراہٹ ابھری مگر بجھی ہوئی۔

انہیں اس کا تعلیمی ریکارڈ سب یاد تھا بہت شاندار رہ چکا تھا۔

وہ پوچھ رہے تھے۔

" پڑھائی چھوڑ دی تھی کیا ؟ ایم اے اردو ' ایم اے سندھی تمہارا خواب تھا۔"

"خواب پورا ہوا اس کے بعد لیکچررشپ کے لیے دی ہوئی کمیشن بھی کلئیر کی۔"

"مطلب تعلیمی لحاظ سے کوئی کمی نہیں۔ یہ بتاؤ بتاؤ شادی ہوئی؟" سوال بہت اہم اور ضروری تھا۔

"جی بالکل ہوئی۔"

"شوہر کیسا ہے۔۔۔۔۔ کماتا ہے۔۔۔۔۔۔ جیب خرچ اچھا ہال دیتا ہے۔ خیال رکھتا ہے........ شک تو نہیں کرتا.......... زیادہ روک ٹوک تونہیں................ کام کیا کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔سیر وغیرہ کے لیے لے جاتا ہو گا؟" ۔ ہر سوال کا جواب مثبت تھا ۔ وہ سوچ میں پڑ گئے۔

"بچے؟" ایک اور اہم سوال۔

"جی دو ہیں۔" جواب تسلی بخش تھا۔

" دو بیٹے یا دو بیٹیاں؟"

" ایک بیٹا ایک بیٹی۔"

"شکر ہے رحمت بھی اور نعمت بھی۔"

"سب ہے۔ شادی، بچے، شوہر، سہولیات سب کچھ۔۔۔۔ پھر یہ خلا۔۔۔۔۔" کہنے لگے۔

" یہ بتاؤ مسئلہ کیا ہے؟"

" اس کا پتہ ہوتا تو کیا میں یہاں آتی ؟" چپ ہوۓ۔ کہنے لگے۔

" کل گھر آؤں گا کوئی اعتراض؟"

" سو بار ائیں اعتراض کیوں ہو گا۔" اس نے کہا۔ ان کی مسکراہٹ میں خاموشی آ گئی۔

اور یہ پہلی مریض بغیر کسی نسخے کے چلتی ہوئی باہر نکل گئی۔

اگلی صبح وہ اس کے گھر تھے ۔ سڑک سے لے کر گھر تک وہ چھوٹے چھوٹے مسائل کو ڈھونڈنے کی کوشش میں ناکام رہے تھے ۔ لاؤنج میں ایک بڑا سا کتابوں کا شیلف بھی تھا وہ اس کی من پسند کتابوں کی ورق گردانی کرنے لگے جب اس کا شوہر عاشر اندر آیا بڑے اخلاق سے ملا اور اس سے