اندر سے لے کر باہر تک ویٹنگ روم کی قطار بنی ہوئی تھی۔ یہ ایک سائکاٹرسٹ کے کلینک کے اندر کا منظر تھا۔ کونے کی ایک میز کے سامنے ایک کرسی پر وہ بھی بیٹھی تھی۔ یہاں اس کے علاوہ کون نہیں تھا۔ بچے، بوڑھے، آدمی ، عورتیں ہر عمر کے افراد موجود تھے۔ وہ اپنی ازلی غائب دماغی سے ہر کسی کے چہرے سے اس کی عمرکا مشاہدہ کررہی تھی۔ ہرایک کے چہرے کی الگ تصویرکشی کی کوشش میں دماغ ہلکان تھا۔
جانے انسان اور چہروں میں اپنی کن محرومیوں کا جواب ڈھونڈتا ہے؟ یا پھر ان کو تلاشنے کی وجہ۔۔۔۔۔
اس نے سوچا بھلا نو سال کے بچے کو کیا مسئلہ در پیش ہوسکتا ہے جسے ماں اپنے پریشان چہرے سے بار بار دیکھتے ہوۓ نظروں ہی نظروں میں بلائیں لے رہی تھی۔
اسے تعجب بھری حیرت سے دکھ بھی ہو رہا تھا ' نوجوان لڑکی کے چہرے پہ نا آسودہ خوابوں کی جھلکیوں میں محرومی تھی۔
اگر ابھی خواب کے ٹوٹنے سے گزرنا باقی تھا تو خواب کی فصل اسے مہنگی پڑنے والی تھی۔
بوڑھے چہرے کی جھریوں میں صدیوں کی تھکن تھی۔ اسے عمر کے اس اسٹیج پر کھڑے ستر سالہ بے ترتیب کپڑوں اور داڑھی والے ابا جی پرکتنا رحم آیا تھا۔ جن کے چہرے پرمشقت اپنی پوری داستان سنا رہی تھی۔
اور ایک ادھیڑ عمرتھکی آنکھوں والی دنیا جہاں کی رونقوں سے بیزارنظر آنے والی خاتون اور اس کے سامنے سے گزرتا ہوا رکتا ادھر ادھر بے خیالی میں غائب دماغی سے نظر گھماتا' بے چین طبیعت کا عکس لیے کوئی نوجوان۔
۔اسے لگا اس ایک کونے میں قطار کی صورت سارے جہاں کے مسئلے ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔ لمحہ جیسے ساکت تھا۔
اس نے ایک نظر اپنے اندر ڈالنا چاہی اور ہمیشہ کی طرح مایوسی ملی خود اس کے اندر کی کہانی کون کہتا۔
وجہ کیا تھی یہ کون جانتا۔
ہر کوئی باری باری اپنی کہانی سنانے اندر جاتا اور دوائیوں کا نسخہ لئے یقین بے یقینی کی آدھی