اس دن وہ کالج سے واپس آ ئی تو امی نے تمتماتے ہوۓ چہرے کے ساتھ اسے بتایا کہ شام کو فوزیہ پھوپھو کی نند کے ساتھ ان کے گھر اس کے رشتے کے سلسلے میں آ رہی ہیں۔
" یہ کیا کہہ رہی ہیں امی! ابھی تو میں نے پڑھنا ہے۔" وہ تو ہتھے سے سے ہی اکھڑ گئی۔
" کیا مطلب پڑھنا ہے' ارے اللہ کا شکر ادا کرو اتنا بہترین رشتہ آیا ہے تمہارے لیے۔ سمیر کو تم نے اکثر تقاریب میں دیکھا ہوا ہے ماشاء اللہ لاکھوں میں ایک نظر آتا ہے۔ کتنی اچھی پوسٹ پر فائز ہے بینک میں' خاندان بھی دیکھا بھالا ہے۔ رشیدہ آپا نے بڑے بیٹے کے ساتھ رہتی ہیں' اسلام آباد میں تم مزے سے اپنے گھر میں راج کرنا۔" انہوں نے جو اس رشتے کے خصائص بیان کرنے شروع کیے تو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں' علینا نے زچ ہو کر انہیں دیکھا۔
" لیکن امی ابھی تو میرا بی اے بھی مکمل نہیں ہوا ہے۔" اس نے کمزور سا احتجاج کیا۔
" ہاں تو ہم کون سا فورا ہی شادی کی تاریخ دے دیں گے' تین ماہ بعد تمہارے ایگزام ہیں بس انشا ء اللہ اس کے بعد ہی کی تاریخ فکس کریں گے۔" انہوں نے بہت اطمینان سے جواب دیا۔
" امی میں تو سمیر کو اچھی طرح سے جانتی بھی نہیں ہوں' نہ ان کی عادت و اطوار اور نہ ہی ان کے نیچر کے بارے میں مجھے کچھ پتا ہے۔" اس نے بہت الجھ کر انہیں دیکھا تو مانو کسی نے انہیں آگ ہی لگا دی ہو۔
" کیوں آفتاب بھائی کے بیٹے کی شادی میں نہین دیکھا تھا تم نے اسے؟ اور اگر تم یہ چاہتی ہو کہ ہم تمہیں شادی سے پہلے اس کے ساتھ ڈیٹ پر بھیجیں تاکہ تم اس کی عادات و اطوار سمجھ سکو تو بی بی یہ ہمارے خاندان کی روایت نہیں۔ ہوتا ہو گا تمہاری فرینڈز کے یہاں یہ سب کچھ لیکن تمہارے ابو اس معاملے میں کتنے سخت ہیں تم تو جانتی ہی ہو۔" کافی سخت لہجہ تھا ان کا۔ علینا بس بے بسی سے انہیں دیکھ کر رہ گئی تب اس کے اترے ہوۓ چہرے کو دیکھ کر نہ جانے کیوں انہیں اس پر ترس آنے کے ساتھ ساتھ پیار بھی آ گیا۔
" دیکھو بیٹا' زندگی کی اصل حقیقتیں تو شادی کے بعد ہی کھل کر سامنے آتی ہیں ' اگر ایسا نہ ہوتا تو آج ہر لو میرج کامیاب ہوتی اور ایک سمجھ دار اور محبت کرنے والی بیوی میں اتنے گٹس ہوتے ہیں کہ وہ اپنے شوہر کو اپنے خیالات کے مطابق ڈھال سکے اور میری بچی تمہاری دو چھوٹی بہنیں بھی ہیں جو کچھ ہی دنوں میں تمہارے قد کے برابر آ جائیں گی ابھی ان کی ذمہ داری بھی ہمارے سر پر ہے۔ علینا' میری فکروں کو بانٹنے کی بجاۓ ان میں اضافہ تو مت کرو بیٹا۔" بہت محبت سے اسے سمجھاتے ہوۓ آخر میں ان کی آواز بھرا گئی تو علینا بے اختیار ان کے گلے لگ گئی۔
" سوری امی۔۔۔۔ آپ جو کہیں گی ویسا ہی ہو گا' بس آپ روئیں مت۔"
وہ جو کہتے ہیں نا کہ جس بات کا ڈر ہو وہی بات سامنے آ جاتی ہے تو ایسا ہی کچھ علینا کے ساتھ ہوا تھا یوں تو سمیر اس سے بے پناہ محبت کرتا تھا لیکن علینا کی قسمت کہ وہ بلا کا نظر باز تھا اور دوسری بات جو کہ علینا کے دل کو ایک اذیت سے دوچار کیے رکھتی تھی۔ وہ یہ تھی کہ سمیر خواتین کی کمپنی کو بے حد انجواۓ کرتا تھا ' جب کبھی علینا کی فرینڈز اس کے گھر آتیں تو علینا سے زیادہ تو وہ پیش پیش رہتا۔ اتنی گرم جوشی سے ان کا استقبال کرتا کہ علینا دل مسوس کر رہ جاتی۔ خاطروں کی انتہا کر دیتا تھا اس کی زندہ دلی' اس کی دلچسپ باتیں اور شاندار شخصیت علینا کی فرینڈز کو جیسے اپنے سحر میں جکڑ لیتیں لیکن علینا اس دوران جیسے کانٹوں پر لوٹتی رہتی۔ ہاۓ کیسی کیسے دعوے کیا کرتی تھی وہ کہ اگر اس کا شوہر اس ٹائپ کا ہوا تو وہ دو دن بھی نباہ نہ کر پاۓ گی لیکن آج دو ماہ ہونے کو آۓ تھے لیکن وہ بظاہر ٹھیک ٹھاک ہی گزارا کر رہی تھی بس دل اندر ہی اندر گھٹتا رہتا تھا۔