" خیر میں چلتی ہوں۔۔۔۔ خالہ چاند مبارک ہو آپکو۔"
" یہ چاند کسے مبارک ہوتا ہے یہ تو آنے والا کل ہی بتاۓ گا۔ خیر اللہ تجھے خوش رکھے جس کسی کے ساتھ بھی رکھے اور یہ چاند ہم سب کو مبارک کرے ۔" طاہرہ بیگم نے سنجیدگی سے کہا۔ اس کے سر پر دست شفقت پھیرتے ہوۓ دعا دی اور اس کے جانے کے بعد وہ کتنی دیر تک چندا کی باتوں پر غور کرتی رہی تھیں اور بالاخر کسی نتیجے پر پہنچ ہی گئی تھیں۔
چندا ان کے ہمساۓ میں رہتی تھی۔ صفیہ اور لقمان کی تیسری بیٹی تھی۔ لقمان کی کپڑوں کی دکان تھی۔ تین بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا۔ بس گزارا ہو ہی رہا تھا۔ دو بیٹیوں کی فرخندہ کی خالہ کے بیٹے سے اور چندا کی چاند یعنی وسیم ارشد سے سال پہلے منگنی ہوئی تھی۔
وسیم کا باپ ارشد رفیق ورکشاپ چلاتا تھا اور وسیم چونکہ اس کا اکلوتا بیٹا تھا اس لیے اسے بی اے تک کالج میں پڑھایا بھی تھا۔ آج کل چاند ایم اے کے امتحان کی پرائیویٹ تیاری کے ساتھ ساتھ موبائل فون اور ایزی لوڈ کی دکان چلا رہا تھا۔ چونکہ دکان محلے میں تھی لہذا خوب چل رہی تھی اور قریب ہی مین روڈ مارکیٹ کا راستہ ہونے کی وجہ سے بھی اتے جاتے لوگ اس سے بیلینس لوڈ کروایا کرتے ۔ گرمی سردی موسم کے لحاظ سے اس نے دکان میں کولڈ ڈرنک ' جوس ' آئس کریم وغیرہ بھی رکھنا شروع کر دی تھیں ۔ اس کی یہی کامیابی دیکھ کر صفیہ اور لقمان نے رشتے کے لیے فورا ہاں کر دی تھی۔ پھر چاند ان کا دیکھا بھالا لڑکا تھا۔
چندا' چاند اور چاندنی ایک ساتھ ایک ہی محلے میں پلے بڑھے تھے ساتھ کھیلے تھے۔ چاندنی اپنی بیوہ ماں اور گیارہ سالہ بھائی کے ساتھ اسی محلے میں رہتی تھی۔ بارہ جماعتیں پاس کر کے محلے کے بچوں کو ٹیوشنز پڑھاتی اور اس کی ماں بچوں کو قران پاک پڑھانے کے ساتھ ساتھ کپڑے سلائی کر کے اپنا گھر چلانے میں ایسی مگن ہوئی تھی کہ انہیں خوشی کا نام بھی نہ یاد رہا تھا۔ چاند چونکہ اکلوتا تھا اس وجہ سے روپے پیسے کی کمی زیادتی کا کوئی جھنجٹ بھی نہ تھا۔ ارشد رفیق ورکشاپ سے چاند موبائل کی دکان سے اچھا کما لیتے تھے ۔ یہی دیکھ کر چندا بھی مان گئی تھی کہ لمبی چوڑی سسرال کا بکھیڑا بھی نہیں تھا۔
چندا کو اپنی من مانی کرنے اور اپنی من چاہی چیزیں خریدنے کا میچنگ چیزیں لینے کا بہت شوق تھا اور چاند سے شادی کر کے اپنی خواہش پوری کرنے میں اسے آسانی نظر آ رہی تھی چاند کو بھی وہ پسند تھی۔ میٹرک پاس تھی۔ چندا کو سجنے سنورنے کا شوق بچپن سے ہی تھا۔ کبھی کبھی چاند کو اس کا امیر لوگوں کو حسرت بھری نظروں سے دیکھنا کھٹکنے لگا تھا۔
لقمان کا دوست رسول بخش اپنے بیٹے خدا بخش کے ساتھ ایک دن اس کے گھر آ گیا۔ انہیں اپنے بیٹے کے لیے چندا بہت پسند آ گئی تھی۔ اگلے چکر میں پھلوں اور تحفوں سے لدے ہوۓ آۓ اپنی دولت کی ریل پیل کا جلوہ کرایا اور باتوں باتوں میں خدا بخش کے لیے چندا کا ہاتھ مانگ لیا۔ صفیہ اور لقمان کو تو جیسے قارون کا خزانہ ہاتھ لگ گیا تھا۔ جب چندا نے اس رشتے کے لیے سنا تو وہ بھی فورا مان گئی کیونکہ لوگ جب ملنے اتے وقت اتنے لوازمات' تحائف لاتے تھے ان کے گھر میں روپے پیسے کی کتنی فراوانی ہو گی یہی خیال چندا کو نہال کر رہا تھا اور اس نے بڑے طریقے سے طاہرہ بیگم اور چاند کو خدا بخش کے بارے میں بتا دیا تھا کیونکہ عید کے تیسرے دن چندا اور خدا بخش کی منگنی ہونا تھی اور مہینے بعد شادی طے پائی تھی۔ چاند' چندا اور چاندنی تینوں ایک دوسرے کے حالات و خیالات سے واقف تھے۔ بچپن' لڑکپن کا ساتھ تھا جو بلوغت تک آتے آتے محدود ہو گیا تھا۔