وہ اور ان کے گھرانے آپس میں ہمیشہ ایک دوجے کے دکھ ' سکھ خوشی غمی کے ساتھی رہے تھے۔
" پیسہ خواہش پوری کر سکتا ہے خواب نہیں۔ پیسہ ہر کسی کو مل جاتا ہے لیکن پیار کسی کسی کو ملتا ہے۔ بلکہ صرف اسی کو ملتا ہے جس کے نصیب نیک ہوں۔" چاندنی نے چندا کو سمجھایا تھا۔
" پیٹ میں روٹی نہ ہو ' جیب میں پیسہ نہ ہو تو پیار بھی دبے پاؤں پتلی گلی سے باہر نکل جاتا ہے۔" یہ چندا کا خیال تھا۔
آج عید کا دن تھا۔ محلے میں ہلچل کافی تھی۔ مرد نماز کی ادائیگی کے لیے مساجد میں گئے ہوۓ تھے۔ خواتین اور بچے گھروں میں تیار ہو رہے تھے۔ سویاں' شیر خورمہ بانٹ رہے تھے۔ چاند بھی نماز عید کے لیے گیا ہوا تھا۔ طاہرہ بیگم نے بھی نئے کپڑے پہن کر عید کی نماز ادا کی تھی۔ ارشد رفیق بھی چاند کے ہمراہ نماز عید کے لیے نکلے تھے۔ طاہرہ بیگم نے شیر خورمہ پکایا اور پیالیوں میں ڈال کر میوؤں سے سجا کر ٹرے میں رکھا تھا۔ اوپر کروشیے کا ٹرے کور ڈھانپ دیا تھا۔ محلے میں آس پاس کے چند گھروں میں وہ شیر خورمہ دینے جانے کا سوچ ہی رہی تھی کہ چندا اپنے چھوٹے بھائی عدنان کے ساتھ سجی سنوری چلی آئی۔ گہرے گلابی رنگ کے جارجٹ کے کام دار سوٹ میں میچنگ چوڑیاں دونوں ہاتھوں میں سجی تھیں۔ میچنگ ہیل والی جوتی پہنی ہوئی تھی اور میچنگ جیولری سیٹ پہنا ہوا تھا۔ گہری گلابی لپ اسٹک ہونٹوں پر جمی تھی۔ ناخن گہری گلابی رنگ کی نیل پالش سے رنگے ہوۓ تھے ۔ سر سے پاؤں تک وہ گلابی رنگ میں رنگی ہوئی تھی اور یہ رنگ اس کی گوری رنگت پر سج بھی خوب رہا تھا۔
" السلام و علیکم خالہ! عید مبارک۔" چندا نے انہیں دیکھتے مسکراتے ہوۓ کہا۔
" وعلیکم سلام ماشاءاللہ ! جیتی رہ' تجھے بھی عید مبارک ہوچندا! یہ خدا بخش کی بخشی ہوئی سوغات پہنی ہے نا تو نے؟"طاہرہ بیگم نے اسے گلے لگاتے ہوۓ کہا۔
" ہاں خالہ۔۔۔۔ ہے نہ شاندار؟"
" ہاں ہاں بہت شاندار ہے بہت پیاری لگ رہی ہے۔" طاہرہ نے مسکراتے ہوۓ اسے دیکھا اور دل سے سراہا تو وہ بہت خوش ہو کر بولی۔
" کپڑے' جوتے' جیولری' چوڑیاں' لپ اسٹک ہر چیز میچنگ ہو تب ہی اچھی لگتی ہے ناں خالہ؟"
" ہاں بیٹی۔۔۔۔۔ ٹھیک کہا جو تمہارے ساتھ اچھی لگےتم پر سجتی ججتی ہو وہی لو۔ جو میچ نہ کرے اسے لینے کا کیا فائدہ؟" طاہرہ بیگم نے ذو معنی بات کہی تو وہ فورا بولی۔
" اور کیا خالہ۔۔۔۔ خالہ یہ شیر خورمہ رکھ لیں دیگچی بعد میں بھیج دینا۔" چندا نے عدنان کے ہاتھوں سے دیگچی لیتے ہوۓ کہا تو وہ ٹرے کی طرف اشارہ کر کے بولی۔
" میں نے پکا لیا تھا شیر خورمہ دیکھ بانٹنے ہی جا رہی تھی محلے میں کہ تو چلی آئی۔"
" تو خالہ رکھ لو نا میں نے کہا بھی تھا کہ میں دے جاؤں گی۔"
" نہ بی بی نہ۔۔۔۔ ہمیں خدا بخش کی بخشش نہیں چاہیے ہماری حیثیت دیگچی جتنی نہیں ہے۔ ہماری حیثیت صرف ایک پیالی جتنی ہے تو یہ واپس لے جا۔" طاہرہ بیگم نے سنجیدہ لہجے میں کہا تو وہ شرمندگی سے بولی۔
" امی ابا کو برا لگے گا خالہ اگر آپ یہ واپس کرو گی تو۔"
" یہ سوغات واپس کرنے کا برا لگے گا ان کو اور وہ جو رشتے کی بنی بات سے واپس ہو لیے۔ اپنے قول سے پھر گئے۔ تجھے بھیج رہے ہیں ہمیں یہ بتانے ' سمجھانے کو کہ تمہیں بہت بہتر رشتہ مل گیا ہے لہذا تم اپنا چاند اپنے پاس رکھو۔۔۔۔ ان کو برا نہیں لگ رہا اپنی بیٹی کو یوں اپنے پہلے سے طے شدہ سسرال میں یہ سب باتیں کرنے کو بھیجتے ہوۓ۔۔۔۔ تو چل آ میرے ساتھ میں بات کرتی ہوں تیرے اماں باوا سے۔۔۔۔ طاہرہ بیگم کو تو ایک دم سے غصہ آ گیا۔ بولتے بولتے ایک دم سے اس کا بازو پکڑا اور گھر سے باہر نکل گئیں۔ عدنان دیگچی اٹھاۓ پیچھے دوڑا تھا۔ تین گھر چھوڑ کر چندا کا گھر تھا۔ وہ ایک منٹ میں اس کے گھر میں موجود تھیں۔ صفیہ اور لقمان انہیں یوں اچانک اپنے گھر میں دیکھ کر بوکھلا گئے۔