SIZE
2 / 11

" اماں جی۔۔۔؟" بے یقینی اور دکھ اس کی آنکھوں میں آ کر ساکت ہو گئے۔

" ارے کیا اماں جی ۔۔۔ اماں جی۔۔۔ بتا مجھے کہاں ہے میرا موبائل؟" انہوں نے اس کی کلائی کو زور سے جھٹکا دیا۔

" آپ کہیں رکھ کر بھول گئی ہوں گی ۔" اب کی بار بس وہ زرا سا منمنا سکی۔

" میں بوڑھی ہوئی ہوں' پاگل نہیں۔"

انہوں نے جھٹکے سے اس کی کلائی چھوڑ دی' وہ توازن برقرار نہ رکھ سکیاور تخت کے پاۓ کے پاس جا گری۔ اماں صحن سے برامدے میں چلی گئیں۔ گرل کے اس پار سے کبھی ان کے بڑبڑانے کی آواز آئی' کبھی چلانے کی' مگر وہ وہیں بیٹھی رہی' بالکل ساکت' پھر اماں پاؤں میں چپل اڑسے اس کے قریب سے ہو کر گیٹ سے باہر چلی گئیں۔ باہر کھڑے ہو کر گیٹ کے لٹو کو انہوں نے مخالف گھڑی وار گھما کر اپنے تئیں دروازہ اچھی طرح سے بند کیا تھا۔ عاکفہ گیٹ کی آواز سے چونکی اور گیٹ کی سمت دیکھا۔

" اماں جی ٹھیک سے کنڈی چڑھا کر سویا کریں نا' اتنی لمبی دوپہر ہوتی ہے آج کل۔۔۔"

تین دن قبلاس نے اماں سے یہ بات کہی تھیجب جمعہ کے دن وہ اسپتال سے آدھی چھٹی کر کے لوٹی تو سنسان لمبی دوپہر میں اماں گیٹ کو محض لٹو گھما کر بند کیے گہری نیند سوئی ہوئی تھیں اور اماں نے جوابا کہا تھا۔

" اچھا۔۔۔۔ تو اب مجھے عقل مندی کی باتیں سکھاؤگی بی بی؟ سو رہی ہوتی ہوں' مری نہیں ہوں سمجھیں؟تب تو وہ چاہے کچھ سمجھی نہ سمجھی' آج اس کے چودہ طبق ضرور روشن ہوۓ تھے۔

اذان کی آواز ائی تو اس نے جھٹ سے تخت پہ پڑی چیزیں بیگ میں ڈالیں اور وضو کرنے چلی گئی۔ آج تو نماز مکمل کرنا بھی محال ہو گیا تھا۔ ذہن بھٹک بھٹک کر اماں جی کی باتوں کی طرف چلا جاتا۔ ابھی جب وہ میرے پاس گزر کر باہر جا رہی تھیں۔ تب بھلا کیا کہا تھا؟ اس نے یاد کرنے کی کوشش کی۔

" بہن کو دے آئی ہو گی نا اٹھا کر۔۔۔"

نماز مکمل ہو گئی تھی اس نے سوچوں مین غلطاں ہی سلام پھیرا۔

" مجھے معاف کر دے میرے رب' میرے مالک مجھے معاف کر دے۔" اس نے اپنے رب کے آگے ہاتھ جوڑے اور پھر سجدے میں گر گئی' آنکھوں میں برف ہوئی تکلیف قطرہ قطرہ پگھلتی رہی' وہ سجدے میں گری بے اواز روتی رہی۔ دل بھر کے رو لینے کے بعد دل کا بوجھ ہلکا ہوا تب سجدے سے سر اٹھایا۔

" روٹی بنا دو گی ڈاکٹرنی صاحبہ یا اس عمر میں وہ بھی خود بنانی پڑے گی؟" ابھی اس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھاۓ ہی تھے کہ اماں کی پکار سنائی دی۔ جانے وہ کب واپس آئی تھیں۔ اس نے بنا دعا مانگے ہی جاۓ نماز اٹھا دی۔

اس کا تعلق ایک امیر کبیر گھرانے سے تھا۔ والدین کی پہلی اولاد تھی۔ لہذا نازوں میں پلیاور بے حد لاڈلی تھی۔ بیاہ کے آئی تو اتنا جہیز لائی کہ دور دور تک چرچے ہوۓ' مگر اپنی زبان اماں کے ہاں چھوڑ آئی تھی۔ اسے یاد پڑتا تھا کہ اس کی اماں خود بھی بڑی بد مزاج اور تیز زبان ہوا کرتی تھی۔