SIZE
3 / 11

وقت رفتہ رفتہ انہیں ٹھوکریں لگاتا گیا۔ سبق سکھاتا گیا' پہلے وہ کچھ نرم خو ہوئیں' پھر خوش مزاج اور پھر خوش گفتار۔۔۔۔

اس کی شادی طے ہوئی تو ہر وقت وہ اسے یہی سمجھاتیں کہ۔۔۔۔ " دیکھو میری بد زبانی سے نہ میرا معاشرے میں مقام بنا' نہ سسرال میں اور نہ ہی میاں کے دل میں ۔۔۔۔ تم ایسی غلطی نہ کرنا۔" اور رخصتی کے وقت بھی انہوں نے باقی ماؤں کی طرح نہ اس کا ماتھا چوما' ڈھیروں دعائیں دیں تو فقط ایک نصیحت کی۔

" ایک چپ سو سکھ۔۔۔۔" اور پھر جب تک وہ حیات رہیں انہوں نے اس پر کڑی نظر بھی رکھی۔ کبھی جو کہیں سے سن لیتیں کہ عاکفہ کے ہاں کچھ کہا سنی ہو گئی ہےتو فورا فون کھڑکاتیں اور صاف کہتیں کہ زبان درازی کی تو مجھے اماں نہ کہنا۔

صرف ایک بار نا چاہتے ہوۓ بھی اس کی زبان سے کوئی جملہ ادا ہو گیا تھا۔ تو اماں نے سخت کلاس لی۔ اس نے اماں کو صفائی دیتے ہوۓ کہا تھا۔

" اماں میں جانتی ہوں ایک چپ سو سکھ' مگر مجھ سے چپ نہیں رہا گیا۔"

" یہی تو مسئلہ ہے بیٹی' چیزیں ہمارے علم میں ہوتی ہیں ' مگر ہر عمل میں نہیں لاتے' تم چپ کی پریکٹس کیا کرو' مسلسل کیا کرو' تب ہی سکھ ملے گا ' میں نے چپ نہ رہ کے رشتے کھوۓ ہیں' آسانیاں کھوئی ہیں' مقام کھویا ہے اور میں نہیں چاہتی کہ تمہیں بھی ٹھوکر لگے' تب تم پہ صحیح ' غلط واضح ہو ' میں چاہتی ہوں کہ میری نصیحت ہی تمہارے لیے مشعل راہ ہو اور تم ٹھوکروں سے بچی رہو۔" اور پھر اس دن کے بعد سے اماں نے اپنی زیر نگرانی اس کو چپ کی پریکٹس کروائی' مرتے دم تک کرواتی رہیں۔ اگر اس سے ـــــــــــ چھوٹی موٹی چوک بھی ہو جاتی تو فورا دماغ درست کرنے آ جاتیں اور پھر وہ نہ رہیں۔ مگر تب تک عاکفہ چپ رہنے کی عادی ہو چکی تھی۔

کھانا کھانے کے بعد وہ خوامخواہ ہی ٹی وی کے آگے آن بیٹھی' حالانکہ نہ تو اسے ٹاک شوز کا شوق تھا' نہ پرائم ٹائم ڈراماز میں دلچسپی تھی' مگر آج نہ نیند آ رہی تھی' نہ کتاب پڑھنے کو جی چاہ رہا تھا اور تو اور اس نے بیٹے' بہن اور شوہر کو میسج تک نہ کیے جو اس کے لیے دن بھر کی سب سے بڑی تفریح تھی۔ بظاہر اس کا رخ ٹی وی کی طرف تھا ' مگر وہ اسے سن نہ رہی تھی' نہ دیکھ رہی تھی۔ گزشتہ سترہ سالوں میں اس نے کیا کچھ نہ سہا تھا' کیا کچھ نہ دیکھا تھا۔ تن تنہا ' محض ایک چپ کے سہارے۔۔۔۔ وہ بیاہ کے آئی تو شوہر کے تین چھوٹے بھائی اور ایک بہن سب ہی تقریبا جوان تھے' وہ ایف اے پاس تھی۔

ایک روز اچانک میاں ایک نرسنگ کورس میں اس کا داخلہ کرا آۓ۔ میاں اکیلے کمانے والے تھے۔ لہذا کورس کے فورا بعد اس نے ایک اسپتال میں نوکری کر لی۔ اللہ نے جلد ہی ایک بیٹا عطا کر دیا۔ ادھر سب سے بڑے دیور اور نند کا بیاہ شروع ہو گیا۔ بیاہ تو چند دنوں کی مصروفیات تھیں' مگر اس پر جو خرچ ہوا اسے بھرتے بھرتے ان دونوں میاں بیوی کو سالوں لگے۔ پھر بھی دیورانی سے اسے یہ سننے کو ملا کہ بھابی گھر کا کوئی کام نہیں کرتیں' سارا دن میں ہی کھپتی ہوں وغیرہ وغیرہ۔

ساس اور نند منصف بنیں۔ علی الصبح اور شام کے بعد کے لیے انہوں نے تمام بڑے بڑے کام الگ کیے' جیسے فرش دھونا' کپڑے دھونا' سالن بنانا' آٹا گوندھنا اور باقی سارا دن کے کام چھوٹی کے حصے آۓ۔۔۔۔ وہ چپ رہی' خیر چھوٹی پھر بھی لڑ جھگڑ کر الگ ہی ہوئی اور چونکہ وہ چپ رہتی تھی۔ لہذا اس نے بہتوں کو خود کے لیے گھنی اور میسنی جیسے لفظ بولتے سنا۔