SIZE
1 / 11

وہ پسینے سے یوں تربتر تھی کہ سر کے بال تک گیلے ہو چکے تھے۔ دایاں کندھا دکھنے لگا تو اس نے بیگ وہاں سے اتار کر بائیں کندھے پر ڈال لیا۔ پیسے بچانے کی اسے عادت تھی اور ہر گر ہستین کی طرح اپنی اس عادت کے ساتھ وہ خوش اور مطمئن تھی۔ ۔ ٹیکسی کی بجاۓ وہ رکشا لیتی اور جہاں رکشا والی بچت ممکن ہوتی تو وہ بھی ضرور کرتی۔ سودا سلف اور کپڑا' جوتا لیتے وقت خوب بھاؤ تاؤ کرتی۔ دس روپے بچانے کی خاطر گھنٹوں بحث کر سکتی تھی وہ۔۔۔ مگر گھر میں اسے چپ لگ جاتی تھی۔۔۔ شدید چپ۔۔۔ یہ یس کی اماں کا دیا ہوا سبق تھا۔ رخصتی کے وقت وہ اس کے گلے لگیں تو چھ لفظی نصیحت کی۔

" یاد رکھنا ۔۔۔ ایک چپ سو سکھ۔۔۔" اس نے وہ ایک چپ پلو سے باندھ لی' مگر وہ سو سکھ۔۔۔۔؟

یہ سب سوچتے ہوۓ نا چاہتے کے باوجود اس کے لبوں سے ٹھنڈی آہ نکلی۔ ماضی کے سترہ سال اس نے وہ سکھ ڈھونڈتے ہوۓ گزارے تھے ' مگر ابھی تک وہ اسے نہیں مل سکے تھے۔

ہو سکتا ہے مستقبل قریب کی ہی کسی گھڑی میں چھپے ہوں۔اس نے خوش امیدی سے سوچا اور گھر کے دروازے پہ لگے لٹو کو گھڑی وار گھمایا' گھر آ گیا تھا' روزانہ یوں ہی سوچوں کے تانے بانے بنتی وہ گھر پہنچ جاتی تھی۔

" السلام و علیکم!" آواز کو حد ادب میں رکھتے ہوۓ اس نے سلام کیا۔

" وعلیکم۔۔۔ میرا موبائل نہیں مل رہا۔"

روزانہ یہی کرخت آواز استقبال کرتی' مگر آج وہ روزانہ سے زیادہ ڈری' کیونکہ آواز معمول سے کہیں بلند تھی۔ یعنی اماں غصہ میں تھیں۔

" یہیں کہیں ہو گااماں جی!" دھیرے سے کہتے ہوۓ اس نے پرس ان کے پاس تخت پہ رکھا اور خود واش روم میں گھس گئی۔ فریش ہو کر باہر ائی تو پرس الٹا ہوا تھا۔ ہر شے بکھری پڑی تھیاور اماں بڑے دھیان سے اندرونی جیبیں چیک کر رہی تھیں۔ پیسوں والی جیب سے سو کے تین ' پچاس کا ایک نوٹ برامد ہوا اور کچھ سکے کھڑکھڑاۓ۔

" کہاں گیا میرا موبائل؟" انہوں نے اس کی انکھوں میں انکھیں ڈالیں۔

" میں چاۓ پی کر فورا ڈھونڈتی ہوں۔"

" رہنے دو' تم بس اب چاۓ ہی اڑاؤ۔" وہ اٹھ کر اس کے مقابل آ کھڑی ہوئیں۔

" میں ابھی دیکھ دیتی ہوں۔" وہ کہہ کر مڑنے کو ہی تھی کہ اماں نے اس کی کلائی زور سے مروڑی۔

" تمہارے دیکھنے سے ہی تو یہ دن آیا ہے۔"

"جی۔۔۔" جو اس کی سمجھ میں آ رہا تھا وہ سب سمجھنے کو اس کا بالکل دل نہیں چاہ رہا تھا۔

" جانے کب سے نظر تھی تمہاری۔"