" ہاں بھئی۔ ہمیں تو کم عمری میں بیاہ دیا' کبھی پوچھا تک نہ' اس کھرچن کے لیے جانے کیا کیا جمع کر رکھا تھا ' وہ تو ہم دونوں نے پھر بھی کافی کچھ نکلوا لیا تھا ' مگر اماں کے پاس اب بھی بہت کچھ ہو گا۔"
اپنے پر غرور ' نخوت بھرے انداز میں ' ہر موقع پر حق سے زیادہ وصول کرنے والی بڑی آپا کی بد گمانیوں کی حد بہ تھی۔ خاموش بیٹھی چھوٹی آپا کی نظر یک دم زرمینے گل پر پڑی جو سہج سہج ناپ تول کر قدم رکھتی آ رہی تھی۔ طشتری میز پر رکھتے ہوۓ اس نے ایک نظر بہن بھائیوں پر ڈالی جو زرا بھی شرمندہ نہ تھے' ڈھٹائی کی حد تھی۔
لائبہ ' بھیا کی گود میں چڑھی' ان کی جیب سے جھانکتے بٹوے سے چھیڑ خانی کر رہی تھی۔ پورے حق سے ' وہ حق جو زرمینے گل ابا میاں پر جتاتی تھی۔
زرمینے گل کا دل بھر آیا' مگر عقب میں وہ بھابی کے چہرے پر چھلکتی تمسخرانہ مسکراہٹ محسوس کر سکتی تھی جو ماضی میں ابا میاں اور زرمینے گل کے التفات سے جلتی جلستی' اب وہی التفات لائبہ اور اپنے میاں میں دیکھ کر فخر محسوس کرتیں۔
زرمینے گل بھرے' چھلکتے دل کے ساتھ ابا میاں کی مخصوص نشست پر آ بیٹھی' سامنے دوسرے کونے میں جہاں کبھی وہ گڑیوں کا گھر سجاتی' اب وہاں بھیا کے بچے عزمی' عبد المعید اور چھوٹی آپا کے بیٹے لڈو کھیل رہے تھے۔ عبد المعید بھیا کا اکلوتا ' لاڈلا بیٹا ' ویسا ہی جزباتی جوشیلا ' ہار نہ ماننے والا اور بے ایمانی پر ایمان رکھنے والا اس وقت بھی جوش جزبات سے سرخ پڑ رہا تھا۔
کھیل انتہا پر تھا۔ آخری دو' دو تین' تین گوٹوں کے ساتھ۔ عزمی زرمینے گل کو دیکھ کر ہاتھ ہلا ہلا کر پر زور انداز میں بلانے لگا۔ مگر زرمینے گل کا دل اس وقت ہر چیز سے اچاٹ ہو رہا تھا ۔ ورنہ یہ بھتیجے' بھتیجیاں اور بھانجے تو اس کے عزیز دوست تھے ۔ عبد المعید کا جوش آخری سرون پر تھا جب لاؤنج کے کھلے دروازے سے بڑی آپا اور بھیا باہر نکلے۔
شاید بڑی آپا جا رہی تھیں' زرمینے گل اسے دیکھ کر کھڑی ہو گئی۔ پیچھے پیچھے بھابی تھیں' ہمیشہ والی دل جلاتی مسکراہٹ سجاۓ' تب ہی بہن بھائیوں کو کھیلتا دیکھ کر لائبہ بھیا کے ہاتھوں سے نکلی اور اسی سمت دوڑی' مگر جانے پاؤں پھسلا کہ کیا' وہ منہ کے بل دور جا گری' ہار جیت کے منطقی فیصلے کے بغیرتمام کی تمام گوٹیں ہاری ہوئی فوجوں کی طرح ادھر ادھر منتشر ہو گئیں اور قبل اس کے لائبہ چیخ کے احتجاج کرتی۔ اکلوتے لاڈلے جوشیلے بھیا عبد المعید نے ایک جھٹکے سے لائبہ کو اٹھا کر سیدھا کیا اعر پھر ایک زناٹے دار تھپڑ کی گونج ہر طرف ابھری' مگر اس سے زیادہ بھیا کے تیزی سے بڑھتے قدموں کو اس کے منہ سے نکلے نوکیلے لفظوں نے جامد کیا تھا جو کہہ رہا تھا۔
" ایک تو یہ مسلط ہو گئی ہم پر کسی بلا کی طرح' ہر وقت کا عذاب ۔ بڑھاپے کی اولاد ۔" وہ پاؤں پٹختا وہاں سے نکل گیا۔
وقت' ہم میں سے ہر کسی کے کہے گئے الفاظ کشکول میں جمع کرتا جاتا ہے' وقت پرنے پر کسی تھپڑ کی مانند واپس منہ پر مار بھی دیتا ہے' مگر کیا اتنی جلدی؟