SIZE
3 / 5

عدت کے زمانے میں گھر بیٹھنے والی اماں بھی خاموشی کی اس زبان میں زرمینے گل کی غم گسار و دم ساز ہو گئیں۔ عدت کے بعد اماں کے مشن کی نوعیت بدلی اور تلاش رشتہ کے عنوان سے ہم کنار ہوئی۔ خدانخواستہ اپنے لیے نہیں بلکہ زرمینے گل کے لیے۔

ایک سنہری' رو پہلی شام زرمینے گل نے کسی کے نام کی سنہری ' دھاتی انگوٹھی کے بدلےاپنی قیمتی زندگی گروی رکھ دی۔ کس کے نام؟ یہ غیر ضروری ہے۔

اب آگے چلیے تو شادی کی تیاریوں کا شور و غوغا مچتے ہی ابا میاں کے سایہ عاطفت سے نئی نئی محروم زرمینے گل نے گھر کی گلابی فضاؤں کو سیاہ پڑتا محسوس کیا۔ گھر کے بڑے کمرے میں روز بڑے بہن بھائیوں کی بیٹھکیں ہونے لگیں۔ زوروشور سے بحث چلتی' شادی کے خرچے' بھلے وقتوں میں ابا میاں کے دیے گئے قرضے ' بڑی آپا کے تیز طرار جملے' بھیا کی جوشیلی جزباتی تقریریں ' بھابی کی تمسخرانہ دل جلاتی ہنسی' چھوٹی آپا کی خاموشی' ' زرمینے گل کی آنکھیں اور دل بھرے بھرے رہنے لگے' چھلکتے جام اور ایک نوکیلا سماعت کو کاٹتا' دل کو زخمی کرتا فقرہ جو آج کل تواتر سے کانوں میں پڑنے لگا۔

" بڑھاپے کی اولاد ' عذاب کی صورت چھوڑ گئے ابا میاں۔"

کبھی ترتیب بدلتی' کبھی کہنے والا' مگر معنی وہی رہتے' ازیت بڑھتی رہتی اور پس منظر میں موسیقی کی طرح بھابی کی طنزیہ ہنسی' زرمینے گل کی خاموش آنکھوں کی اداسی بڑھنے لگی اور اماں کی اداس آنکھوں میں جامد حیرت بھرا سوال کہ۔۔۔۔

" یا رب ' ایک بیٹی باپ کے بغیر بیاہنی بھاری پڑ گئی۔"

ڈھیروں جہیز تو جمع تھا۔ بڑا بڑا سامان دے دلا کر ' چار لوگوں کی دعوت طعام کے بعد رخصت ہی تو کرنا تھا۔ بڑی آپا اپنی بڑی اولادوں کے بیاہ کے بعد جھکی کمر کا شکوہ کرتیں اور بھیا اپنی اولاد کی مہنگی تعلیم کا۔ بلا مبالغہ ہر ہر موقع پر ابا میاں نے زرمینے گل کے لیے پس انداز کی گئی رقم میں سے کچھ حصہ دونوں کے حوالے کرتے وقت کہا تھا کہ " یہ زرمینے گل کی امانت ہے خیانت نہ کرنا۔"

مگر اب امانت کو حق کا نام دے کر ہڑپ کرنے کے بعد فرض کو احسان کا نام دینے پر زور تھا۔

اور یہ بھی ایسی ہی ایک بھید بھری شام تھی۔

مغرب کی جانب سے اٹھتے زرد بادلوں کے بادلوں کے بگولے نے بعد عصر ہی سارے فلک پر پھیل کر حبس اور گرد کے راج کو اور تقویت بخشی تھی۔ لمبے کمرے میں آج پھر سے بیٹھک جمی تھی۔ جب چاۓ کی طشتری تھامے بیٹھک کی طرف بڑھتے زرمینے گل کے قدم ذرا سے تھمے اور طشتری اس کے ہاتھوں میں کانپی جب اپنی لاڈلی تین سالہ سب سے چھوٹی بیٹی لائبہ کو گود میں اٹھاۓ' بھیا اس کی پونیاں کستے ہوۓ اپنے ازلی جوشیلے انداز میں بولے۔

" نو لاکھ جمع کرواۓ ہیں عزمی کے میڈیکل کے ' ڈیڑھ لاکھ عبد المعید کی سمسٹر فیس ہے ۔ کہاں سے کروں دھوم دھام سے شادی ' پانچ لاکھ کہاں سے لاؤں۔ ابا میاں خود تو چلے گئے۔ یہ بڑھاپے کی اولاد ہمارے سر چھوڑ گئے۔" لائبہ کے پھولے پھولے گالوں پر بوسہ دیتے ہوۓ ' بڑی آپا کی طرف تائیدی انداز میں دیکھا۔