SIZE
2 / 5

بڑی آپا اور بھیا تو ننھی زرمینے گل سے خار کھانے لگے' مگر یہ تمام حالات و واقعات جہاں اماں کے حوصلے پست کرنے کا سبب بنے وہیں ابا میاں کی ہمت اور حوصلے جواں ہو گئے۔ اب تمام چشم بصیرترکھنے والوں نے دیکھا کہ جہاں جہاں ابا میاں' وہاں وہاں زرمینے گل۔

نہلانا دھلانا' کھلانا پلانا' چھوٹی اپا کے ذمے تھا ۔ گھمانا پھرانا' کھیل کھلانا ابا میاں کے سر اور ان سب کے پرے شام پڑتے ہی ابا میاں کے شیشے جڑےتخت والے پلنگ پر زرمینے گل آنکھیں موندتے ہی ' ابا میاں کی سنائی گئی کہانیوں کے اس جہان جا پہنچتی جہاں صرف وہ اور ابا میاں ہوتے ' نہ بڑی آپا کی کٹیلی نگاہیں ' نہ بھیا کے طنزیہ جملے اور نہ بھابی کی تمسخرانہ ہنسی۔

اماں جانی نے ساری جوانی اپنوں سے دور ابا میاں کی دو ٹکے کی نوکری کے پیچھے کراچی جیسے شہر میں گنوا دی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ایبٹ آباد واپسی پر اب اماں کو کھل کھیلنے کا موقع ملا۔ مطلب برسوں کی تشنگی مٹانے کو ' وہ اب کوئی تعزیت ' پرسہ' عیادت' مبارک' سلامت' خبر گیری قضا کرنے کی روادار نہ تھیں۔ ناشتے کے بعد شٹل کاک برقعہ سر پر جماۓ بہن کا ہاتھ پکڑے نکل کھڑی ہوتیں اور مغرب کی خبر لاتیں کہ یہ بھی ماں کی بچپن کی تربیت تھی کہ مغرب کے بعد گھر سے باہر نہ رہنا بچے' سو بلاؤں کا نزول ہوتا ہے اور کبھی کبھی اتفاقا کہیں جانے کا موقع نہ ہوتا تو ہٹ لسٹ پر براجمان افراد کی عیادت کو پہنچ جاتیں اور یہ ہٹ لسٹ ۔۔۔۔ ابدی حیات کی راہ میں دیدہ دل فرش راہ کیے زیادہ بیمار اور کم بیمار افراد کی درجہ بندی تھی۔

خیر' تو بات ہو رہی تھی ابا میاں اور زرمینے گل کی۔ اب دیکھیے تو ابا میاں سیگریٹ سلگاۓ اپنی مخصوص نشست پر براجمان ہیں اور زرمینے بی بی گڑیوں کا گھر سجاۓ اسی برامدے کے دوسرے کونے میں ۔ ابا میاں کی سیگریٹ کی ڈبیاں خالی ہوتیں اور زرمینے گل کی گڑیوں کا جہیز سجتا رہتا ۔ صوفے ' پلنگ' میزیں' الماریاں بازار جا رہے ہیں اور زرمینے گل دو پونیاں لہراتے ہوۓ پیچھے پیچھے۔

گرمیوں کی خوش گوار شامیں' ابا میاں اور زرمینے گل کی سامنے والے پہاڑی پر گزرتیں اور جب پہاڑی کے پیچھے والے میدان میں فوجی چاند ماری کی مشقوں کے بعد بکھرنے والے چھروں کے خالی خول ' زرمینے گل جمع کرتی جاتی تو ابا میاں بھرپور ساتھ دیتے۔

وقت دھیرے سے آگے سرکا ' چھوٹی آپا بیاہی گئیں۔

اماں کے سفارتی دوروں کا دائرہ اور بڑھا ' بڑی آپا کے ماتھے کی شکنیں گہری اور مستقل ہوتی گئیں۔ بھیا نے اپنے سوچنے سمجھنے کی ساری صلاحیتیں بھابی کے پاس بطور امانت رکھوا دیں' مگر ابا میاں اور زرمینے گل اپنے ہی دائرے میں گول گول گھومتے رہے۔ ابا میاں کو السر ہوا تو زرمینے گل نے ابا میاں کا مورال بدلنے کے لیے کود بھی یخنی اور دلیے کی خوراک اپنا لی۔ ابا میاں نے بیماری کی وجہ سے روزے قضا کیے تو زرمینے گل نے یہاں بھی بھرپور ساتھ دیا ۔ وقت کا پہیہ گول گول گھومتا رہا ۔ اور وہ جو قدرت کا اصول ہے کہ دائرہ ٹوٹ گیا۔

ابا میاں ٹوٹ کر ستارہ ہو گئےاور زرمینے گل ٹوٹا ہوا تارہ۔

اب زرمینے گل اس بھرے پرے گھر میں تنہا رہ گئی۔ گھنٹوں سبز ۔۔۔ کانچ نمکین پانیوں میں ڈولتے رہتے اورایک ہی عکس تحریر ہوتا۔ ابا میاں کا۔